Home sticky post 2 تحریک انصاف نے اپنے دور حکومت میں بڑی گرمجوشی سے آرمی ایکٹ سے متعلق قانون سازی کی،جسٹس نعیم اخترافغان

تحریک انصاف نے اپنے دور حکومت میں بڑی گرمجوشی سے آرمی ایکٹ سے متعلق قانون سازی کی،جسٹس نعیم اخترافغان

Share
Share

اسلام آباد:فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ مارشل لاء کے بنے قوانین کو آئین کے آرٹیکل 270 میں تحفظ دیا گیا،سول سروس میں کوئی شخص ایسا جرم کرتا ہے تو اسے نوکری سے نکالا جاتا ہے، جسٹس نعیم اخترافغان نے کہا کہ تحریک انصافنے اپنے دور حکومت میں بڑی گرمجوشی سے آرمی ایکٹ سے متعلق قانون سازی کی۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیئے کہ بلیک ہول نہیں ہونا چاہیے، شفاف ٹرائل کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے حوالے سے انٹراکورٹ اپیلوں پرسماعت کی۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل میں بتایا کہ لیاقت حسین کیس آرٹیکل 10 اے سے پہلے کی ہے۔ 1975 میں ایف بی علی کیس میں پہلی دفعہ ٹو ون ڈی ون کا ذکر ہوا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ اگر بنیادی حقوق دستیاب نا ہوں اور کسی ایکٹ کے ساتھ ملا لیا جائے، تو کیا بنیادی حقوق متاثر ہوں گے؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا قانون کے مطابق جرم کا تعلق آرمی ایکٹ سے ہونا ضروری ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ ٹو ون ڈی کی حیثیت کو ہرمرتبہ سپریم کورٹ جوڈیشل ریویو کیوں کرے؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ لیگل فریم ورک تبدیل ہوجائے تو جوڈیشل ریویو کیا جا سکتا ہے۔ جسٹس نعیم اخترافغان نے ریمارکس دیئے کہ ٹوون ڈی کیلئے1967 میں آرڈیننس لایا گیا،آرڈیننس کی ایک معیاد ہوتی ہے،کہیں ایسا تونہیں کہ آرڈیننس کی معیاد ختم ہونے پر متروک ہو گیا ہو۔سلمان راجہ نے جواب دیا آرڈیننس کو ایکٹ آف پارلیمنٹ کا درجہ دے دیا گیا تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ مارشل لاء کے بنے قوانین کو آئین کے آرٹیکل 270 میں تحفظ دیا گیا،سول سروس میں کوئی شخص ایسا جرم کرتا ہے تو اسے نوکری سے نکالا جاتا ہے،سول سروس میں سزا دینے کا اختیارموجود نہیں ہے۔ آرمڈ فورسز میں ایک طرف نوکری سے نکالاجاتا ہے دوسری طرف سزا بھی دی جاتی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہرنے ریمارکس دیئے کہ اگر کوئی جاسوس پکڑا جاتا ہے تو اس کا ٹرائل کہاں کریں گے؟ سلمان اکرم راجہ نے جواب میں کہا کہ اس کا ٹرائل آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ہوگا،کلبھوشن کا کیس آپ کے سامنے ہے،دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ آئین بنیادی حقوق دے اور کوئی ایک انگلی کے اشارے سے بنیادی حقوق چھین لے۔

سلمان اکرم راجہ نے دلائل میں کہا سپریم کورٹ ایف بی علی کیس پر نظرثانی کیے بغیر آرمی ایکٹ کی شقوں کا جائزہ لے سکتی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کیا ہم آئین کے پابند ہیں یا عدالتی فیصلے کے پابند ہیں۔ اگر آئین میں تبدیلی ہو جائے تو کیا ہوگا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس میں کہا کہ ہم نے مرکزی فیصلے پر نظرثانی کرنی ہے، یکسانیت بھی لانی ہے اور تشریح بھی کرنی ہے،پتہ نہیں اور کیا کیا کرنا ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ بند دروازوں کے پیچھے شفاف ٹرائل نہیں ہو سکتا۔ 19ویں صدی والا کورٹ مارشل اب پوری دنیا میں تبدیل ہو چکا ہے۔
جسٹس حسن اظہررضوی نے ریمارکس دیئے کہ اگرملزمان اعتراف نہیں کرتے تو وہ انکار بھی تو نہیں کرتے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ دنیا میں پورا سسٹم بدل کر رکھ دیا گیا ہے۔ دنیا میں اوپن ٹرائل کا تصور بھی موجود ہے۔ جس پرجسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے سامنے جو معاملہ ہے ہم نے اس کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔ بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

Share
Related Articles

ناممکن کو ممکن کر دکھایا، پاکستان نے جنوبی افریقہ کو 6 وکٹوں سے شکست دے دی

کراچی: سہ ملکی ون ڈے سیریز، کپتان محمد رضوان اور نائب کپتان...

سہ ملکی سیریز،جنوبی افریقہ کا پاکستان کو جیت کیلئے 353 رنز کا ہدف،شاہینوں کی بیٹنگ جاری

کراچی:سہ ملکی سیریز کے تیسرے میچ میں جنوبی افریقہ نے پاکستان کے...

آئی ایم ایف وفد کی ججز سے ملاقات انوکھا واقعہ، لگتا ہے انہیں نظام عدل پر تحفظات ہیں، مولانا فضل الرحمان

اسلام آباد:جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا...