اسلام آباد:بچوں کی کردار سازی میں والدین کی تربیت اور انہیں مہیا کیا جانے والا ماحول سب سے زیادہ اہم کردار کرتا ہے۔ صاحب اولاد ہونے کی خواہش تو ہر والدین کرتے ہیں، لیکن بچوں کی کردار سازی کے سلسلے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے میں کوتاہی برتتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کا ذہن کورے کاغذ کی مانند ہوتا ہے، بچہ جس جیسا ماحول پرورش پاتا ہے وہ اسی ماحول کا اثر قبول کرتا ہے۔
بچے تو بچے ہوتے ہیں انہیں جیسا ماحول ملتا ہے، اس میں ان کی شخصیت ڈھل جاتی ہے۔ بچوں کی کردار سازی اور ان کی نفسیات کے حوالے سے ماحول بہت گہرا اثر مرتب کرتا ہے۔ جس طرح تعلیم و تربیت انسانی روح کی بہت اہم غذائیں ہیں، اسی طرح ماحول بھی انسان کی نشوونما میں اہمیت کا حامل ہے۔
والدین کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تربیت انسان سازی کا ہنر اور انسان کی پہچان ہی اس کی تربیت سے جھلکتی ہے۔ تربیت کا اصل مقصد انسان کی اچھائیوں کو ابھارنا اور اجاگر کرنا ہے۔ انسان کی تربیت میں ماحول کے کردار کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جو بچوں کی کردار سازی کے ساتھ ساتھ ان کی نفسیات پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔
بچوں کی نفسیات سے مراد بچوں کی فطرتیں ہیں، جو ان میں پیدائشی طور پر پائی جاتی ہیں، یہ فطرتیں قدرت کی عکاس ہوتی ہیں جنھیں تبدیل کرنے کے بہ جائے صحیح سمت دینے کی ضرورت ہوتی ہے اور بچوں کی صحیح سمت میں تربیت کے لیے ان کی نفسیات کو سمجھنا بہت ضروری ہے اور اس کے لیے اولین شرط والدین کا اپنے بچوں سے قربت ہے اور اس قربت میں دوستانہ رویہ اور بے پناہ لگاوٴ بھی ہو تو بچوں کی نفسیات کو سمجھنے میں والدین اپنا کردار بہتر طریقے سے ادا کر سکتے ہیں۔ والدین کا دوستانہ رویہ اور شفقت کا برتاوٴ بچوں کی کردار سازی اور ان کی نفسیات پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کا ذہن کورے کاغذ کی مانند ہوتا ہے، بچہ جس جیسا ماحول پرورش پاتا ہے وہ اسی ماحول کا اثر قبول کرتا ہے۔ والدین جیسا ماحول بچے کو مہیا کرتے ہیں، وہ اسی ماحول کے مثبت منفی اثرات اپنے اندر پیدا کرتا ہے، جو اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔
بچے اپنے ماحول میں اپنے ارد گرد کے لوگوں کو جو کرتا دیکھتے ہیں وہ بھی وہی طور طریقے اپنالیتے ہیں اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بچے کی شخصیت پر ماحول کا کتنا گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔ والدین کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ یہ ضرور دیکھیں کہ ان کے بچے کن لوگوں کے ساتھ میل جول رکھے ہوئے ہیں۔
بچوں کی کردار سازی میں جہاں ماحول اثر انداز ہوتا ہے وہیں والدین کا رویہ بھی اپنا گہرا اثر مرتب کرتا ہے۔ بچوں کی ابتدائی عمر ہر لحاظ سے خوب پھلنے پھولنے کی ہوتی ہے اس عمر میں بچوں کی نقل و حرکت پہ کڑی نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ دوستانہ رویہ بھی ضروری ہے۔ ایک سنہری کہاوت ہے کہ گھر میں بچوں کے اچھے دوست بن جائیں، تو بچے باہر کی بری دوستی سے بچ جاتے ہیں۔
سادہ الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بچوں کو گھر میں اچھا دوستانہ ماحول مہیا کریں، تاکہ آپ کے بچے بری صحبت اور ہر برائی سے دور رہیں۔ صرف وقت کی کمی اور بچوں سے دوستانہ تعلق کا نہ ہونا ہی وہ واحد مسئلہ ہے کہ بچے والدین سے اپنی بات کہتے ہوئے جھجھک اور ڈر محسوس کرتے ہیں اور اگر وہ اپنا مسئلہ والدین کو بتائیں تو اکثر والدین توجہ ہی نہیں دیتے۔ یوں بچے اپنے والدین سے دوری محسوس کرتے ہیں اور مسائل کا شکار رہتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ بچوں کو مکمل آزادی کسی صورت نہیں دینی چاہیے۔ والدین کا رعب بھی قائم رہنا چاہیے، مگر صرف اتنا جتنا ضروری ہے بلاوجہ کا رعب اور غصہ بچوں کو والدین سے دور کرنے کا سبب بنتا ہے۔ والدین ہی بچوں کے سب سے اچھے اور گہرے دوست ہوتے ہیں۔ والد کا دوستانہ رویہ بیٹے کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ بیٹا اپنی ہر بات اور اپنا ہر مسئلہ اپنے والد سے کر سکتا ہے۔
یوں اسے اپنا مسئلہ حل کرنے کے لیے کسی دوسرے شخص کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ والد اس کا مسئلہ جان کر اپنے بیٹے کو مناسب مشورہ دے کر اس کا مسئلہ حل کر سکتے ہیں بلکہ باپ کو اپنی بیٹی کے ساتھ بھی اتنا دوستانہ رویہ اپنانا چاہیے کہ وہ بھی اپنے مسائل اپنے باپ سے کہہ سکے یعنی باپ کو اپنے بچوں کا دوست ہونا چاہیے۔
اسی طرح ایک ماں کو اپنی بیٹی کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ بیٹیاں اپنے مسائل صرف اپنی ماں سے بہ آسانی کہہ سکے اس میں اسے کسی قسم کی کوئی جھجک نہ ہو۔ بچیاں جب بڑی ہونے لگتی ہیں، تو انھیں سب سے زیادہ اپنی ماں کی قربت اور دوستی کی ضرورت ہوتی ہے۔
والدین اگر اپنے بچوں کے ساتھ جس شفقت اور محبت کے ساتھ پیش آئیں گے، تبھی بچے بھی اسی طرح کی شفقت اور محبت اپنے اندر پیدا کر پائیں گے۔ وہ بچے انتہائی خوش قسمت ہوتے ہیں کہ جن کو گھر کا ماحول اچھا اور والدین کی محبت و شفقت سے بھرپور ملتا ہے اور یہ بچوں کی کردار سازی اور کام یاب زندگی کا اہم ضامن ہے۔