اسلام آباد:وفاقی شرعی عدالت نے خواجہ سرا ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ سنا دیا۔فیصلے میں کہا کہ جنس کا تعلق انسان کی بائیولوجیکل سیکس سے ہوتا ہے۔ محسوسات کی بنیاد پر انسان کی جنس کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔خواجہ سرا تمام بنیادوں حقوق کے مستحق ہیں جو آئین میں درج ہیں۔
وفاقی شرعی عدالت نے فیصلے میں ٹرانس جینڈر ایکٹ کی سیکشن 2 این (3)، سیکشن 2 ایف ، سیکشن 3 اور سیکشن 7 کو خلاف شریعت قرار دے دیا۔
عدالت نے خواجہ سرا ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پردئیے گئے فیصلے میں کہا کہ جنس کا تعلق انسان کی بائیولوجیکل سیکس سے ہوتا ہے۔ محسوسات کی بنیاد پر انسان کی جنس کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ اسلام میں خواجہ سراؤں کا تصور اور اس حوالے سے احکامات موجود ہیں۔ اسلام خواجہ سراوٴں کو تمام بنیادی حقوق فراہم کرتا ہے۔ٹرانس جینڈر ایکٹ کی سیکشن 2این شریعت کیخلاف نہیں۔خواجہ سرا تمام بنیادوں حقوق کے مستحق ہیں جو آئین میں درج ہیں۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ کوئی شخص اپنی مرضی سے جنس تبدیل نہیں کرسکتا۔ خواجہ سراوٴں کی جنس کا تعین جسمانی اثرات پر غالب ہونے پر کیا جائے گا۔ جس پر مرد کیاثرات غالب ہیں وہ مرد خواجہ سرا تصور ہوگا۔ شریعت کسی کو نامرد ہو کرجنس کی تبدیلی کی اجازت نہیں دیتی۔
فیصلے کے مطابق کوئی شخص اپنی مرضی سے جنس تبدیل نہیں کرسکتا۔ سیکشن 7 کے تحت مرضی سے جنس کا تعین کرکے کوئی بھی وراثت میں مرضی کا حصہ لے سکتا تھا۔ وراثت میں حصہ جنس کے مطابق ہی مل سکتا ہے۔ مرد یا عورت خود کو بائیولوجیکل جنس سے ہٹ کر خواجہ سرا کہے تو یہ غیرشرعی ہوگا۔
شرعی عدالت نے نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کے تحت بننے والے رولز بھی غیرشرعی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان دفعات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔