اسلام آباد: ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں نیب نے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی اپیلیں بحال کرنے کی حمایت کر دی۔
سزا کے خلاف اپیل بحال کرنے کی درخواستوں پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں دو رکنی بینچ سماعت کررہاہے۔ نیب پراسکیوٹر جنرل سید غلام قادر شاہ نے دلائل شروع کیے تو اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ عدالت نئی بنی ہے اس لیے ایکو کا مسئلہ ہے۔
پراسیکیوٹر جنرل نیب نے روسٹرم پر آکر کہا کہ ریفرنس واپس لینے کی گنجائش صرف اس صورت میں ہے جب فیصلہ نا سنایا گیا ہو، ہم نے ان اپیلوں پر غور کیا ہے، دونوں کیسز کے حقائق اور قانون کا جائزہ لیا گیا ہے، پہلے ایون فیلڈ کیس سے متعلق بتانا چاہتا ہوں۔ریفرنس سپریم کورٹ کے حکم پر دائر کیے تھے، سپریم کورٹ نے ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا بلکہ جے آئی ٹی بھی تشکیل دی۔
پراسکیوٹر جنرل نیب نے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں جے آئی ٹی قائم ہوئی اور احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر ہوئیں، ریفرنس واپس لینے کی گنجائش احتساب عدالت میں موجود تھی لیکن کریمنل اپیل سماعت کے لیے منظور ہونے کے بعد واپس نہیں لے سکتے، اپیل سماعت کے لیے منظور ہونے کے بعد عدم پیروی پر بھی خارج نہیں ہوسکتی۔
انہوں نے دلائل میں مزید کہا کہ اگر اپیل دائر ہو جائے تو اس کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے، اگر ان اپیلوں کو بحال کریں گے تو پھر انہیں میرٹس پر دلائل سن کر فیصلہ کرنا ہوگا۔ میڈیا پر چلا کہ شاید نیب نے سرنڈر کردیا ہے لیکن ایسی کوئی صورتحال نہیں ہے۔ بطور پراسکیوٹر جنرل میں قانون کے مطابق چیئرمین نیب کو ایڈوائس دینے کا پابند ہوں، پراسیکیوٹرز نے ریاست کے مفاد کو دیکھنے کے ساتھ انصاف کی فراہمی بھی دیکھنی ہے اور اعلی معیار کی پراسیکیوشن کرنا پراسیکیوٹر کی ڈیوٹی ہے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ پراسیکیوٹر کی ذمہ داری ہے کہ اگر کوئی شواہد ملزم کے حق میں تو اسے بھی نہ چھپائے، پراسیکیوٹر کو ملزم کے لیے متعصب نہیں ہونا چاہیے، نواز شریف کی دو اپیلیں عدم پیروی پر خارج ہوئیں اور اس کیس میں دائمی وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے، اس عدالت نے آبزرو کیا تھا کہ جب اشتہاری سرینڈر کرے اس کے ساتھ قانون کے مطابق کارروائی ہو۔
پراسیکیوٹر جنرل نیب نے اہم بیان دیتے ہوئے کہا کہ اپیلیں بحال کرنے پر نیب کو اعتراض نہیں ہے، عدالت اپیلیں بحال کرتی ہے تو ہمیں اعتراض نہیں ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ہم نے آپ کو کہا تھا کہ آپ اس سے متعلق مزید غور بھی کریں، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اگر اپیلیں بحال ہوئیں تو ہم دلائل دیں گے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ آپ فیصلے کے حق میں دلائل دیں گے، جس پر پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ پہلے مرحلے میں ہمیں اپیلیں بحال کرنے پر اعتراض نہیں ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس میں کہا کہ اس وقت ہمارے سامنے اپیل بحالی کی درخواست ہے۔ پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ اپیلیں بحال ہوگئیں تو پھر شواہد کا جائزہ لے کر عدالت میں موقف اختیار کریں گے۔
نیب نے نواز شریف کی اپیلیں بحال کرنے کی حمایت کر دی۔ پراسہکیوٹر جنرل نیب نے واضح کیا کہ چیئرمین نیب اور میری متفقہ رائے ہے کہ اپیل بحال ہونے پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔
امجد پرویز ایڈوکیٹ نے کہا کہ جب سزا معطل ہوئی تو عدالت نے ہر کسی کے رول کو واضح کیا تھا، مریم نواز کی ایون فیلڈ ریفرنس سے بریت کے فیصلے میں عدالت نے واضح کر دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ نیب کو بارہا مواقع دیے گئے مگر تین مرتبہ وکلا کو تبدیل کیا گیا۔ عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ نیب نواز شریف کا کردار بھی ثابت کرنے میں ناکام رہا اور اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔
دوسری جانب سابق وزیر اعظم نواز شریف چھانگلہ گلی سے اسلام آباد ہائی کورٹ پیشی کے لیے پہنچے تھے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کے ہمراہ انکے بھائی شہباز شریف، اسحاق ڈار، خواجہ محمد آصف، خواجہ سعد رفیق، عطا تارڑ، انجینیئر خرم دستگیر، سردار ایاز صادق، چوہدری تنویر، عابد شیر علی اور احسن اقبال سمیت دیگر رہنما بھی عدالت میں موجود تھے۔
نواز شریف نے رات چھانگلہ گلی اپنی رہائش گاہ پر قیام کیا۔ سابق وزیراعظم کے ہمراہ ان کی بیٹی مریم نواز مریم، جنید صفدر اور فیملی کے دیگر افراد نے بھی رات چھانگلہ گلی میں گزاری۔
اس سے قبل، سابق وزیراعظم نواز شریف منسٹر کالونی پہنچے جہاں انہوں نے اسحاق ڈار کی رہائشگاہ پر قانونی ماہرین سے مشاورت کی۔
پاکستان مسلم لیگ کے کارکنان کی بڑی تعداد اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر موجود رہے۔