نور مقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت کا فیصلہ
Share your love
اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے نور مقدم کے قتل کے مقدمے میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت جبکہ ان کے دو ملازمین جان محمد اور افتخار کو دس، دس سال قید کی سزا سُنائی ہے۔
ظاہر جعفر کے والدین ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی سمیت مقدمے میں نامزد دیگر ملزمان کو بری کر دیا گیا ہے۔
سزائے موت کے ساتھ ساتھ عدالت نے نور مقدم کے ساتھ ریپ کرنے کا الزام ثابت ہونے پر ظاہر جعفر کو 25 سال قید بامشقت اور دو لاکھ روپے جرمانہ، اغوا کا جرم ثابت ہونے پر دس سال قید بھی سُنائی ہے۔ نور مقدم کو حبس بیجا میں رکھنے پر مجرم ظاہر جعفر کو علیحدہ سے ایک سال قید کی سزا سنائی ہے۔
ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے مقدمے کی سماعت مکمل ہونے کے بعد 22 فروری کو فیصلہ محفوظ کیا تھا جو جمعرات کی دوپہر سُنایا گیا۔
فیصلہ سننے کے لیے تمام ملزمان کے علاوہ مقتولہ کے والد اور مدعی مقدمہ شوکت مقدم بھی عدالت میں موجود تھے۔
فیصلے کے بعد بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شوکت مقدم کا کہنا تھا کہ وہ ظاہر جعفر کے والدین کی بریت کے معاملے پر اپنے وکلا سے مشاورت کے بعد مستقبل کا لائحہ عمل طے کریں گے۔ مجرم ظاہر جعفر کے پاس اس سزا کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کا حق محفوظ ہے۔
عدالت نے کیس پر اٹھنے والے اخراجات کی مد میں مجرم ظاہر جعفر کو مدعی مقدمہ شوکت مقدم کو پانچ لاکھ روپے ادا کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
اس مقدمۂ قتل میں مجموعی طور پر 12 ملزمان شامل تفتیش رہے جن میں سے چار ملزمان یعنی مرکزی ملزم ظاہر جعفر، اُن کے والد ذاکر جعفر، سکیورٹی گارڈ افتخار اور مالی جان محمد زیرِ حراست رہے۔
دیگر آٹھ ملزمان کو دورانِ سماعت ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔ رہائی پانے والوں میں سے چھ ملزمان تھیراپی ورکس کے ملازمین تھے جبکہ دیگر دو میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی والدہ اور اُن کا باورچی جمیل شامل تھے۔
ملزمان پر 14 اکتوبر 2021 کو فرد جرم عائد کی گئی تھی اور مقدمے کا فیصلہ فرد جرم عائد ہونے کے لگ بھگ 17 ہفتے بعد ہوا ہے۔