Enter your email address below and subscribe to our newsletter

قومی احتساب ترمیمی بل 2023سمیت 8بل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظور

Share your love

سلام آباد:چیئرمین نیب اختیارات میں اضافے سے متعلق قومی احتساب ترمیمی بل 2023سمیت 8بل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظور۔چیئرمین نیب کسی اور قانون کے تحت شروع انکوائریز بند کرنے کا اختیار ہوگا۔

پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اسپیکر راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت ہوا، مشترکہ اجلاس نے قومی احتساب ترمیمی بل 2023منظور کر لیاجبکہ نیب قانون میں جماعت اسلامی کی ترامیم کو کثرت رائے سے مسترد کر دیاگیا ۔

نیب قانون کے تحت نیب ایکٹ کی 17سیکشنز میں ترامیم کی گئیں نیب ترمیمی بل 1999 سے نافذ العمل ہوگا جسکے تحت چیئرمین نیب کو مزید بااختیار بنایا گیا۔

نیب قانون کی مشترکہ اجلاس ے منظوری کے بعد تمام زیر التوا انکوائریز جنہیں سب سیکشن 3 کے تحت ٹرانسفر کرنا مقصود ہو چیئرمین نیب غور کرینگے۔

چیئرمین نیب کو کسی اور قانون کے تحت شروع انکوائریز بند کرنے کا اختیار ہوگا،جبکہ چیئر مین ایسی تمام انکوائز متعلقہ ایجنسی ،ادارے یا اتھارٹی کو بجھوانیکا مجاز ہوگا،نیب قانون میں نئی ترمیم کے زریعے نیب انکوائری میں مطمئن نہ ہونے پر چیئرمین نیب متعلقہ عدالت کو کیس ختم کرنے اور ملزم کی رہائی کیلئے منظوری کے غرض سے بھیجنے کا مجاز ہو گا ۔

چیئر مین نیب سے انکوائری موصول ہونے پر متعلقہ ایجنسی اتھارٹی یا محکمہ شق اے ،بی کے تحت مزید انکوائری کا مجاز ہوگا، عدالت مطمئن نہ ہونے پر کوئی بھی مقدمہ نیب کی مدد سے متعلقہ اداروں ،ایجنسی یا اتھارٹی کو واپس بجھوا سکے گی۔

نیب قانون کے تحت نیب عدالت سے مقدمے کی واپسی پر متعلقہ محکمہ یا اتھارٹی اپنے قوانین کے تحت مقدمہ چلا سکے گی،جبکہ احتساب ترمیمی ایکٹ 2022 اور 2023 سے پہلے جن مقدمات کا فیصلہ ہوچکا وہ نافذ العمل رہینگے ،یہ فیصلے انہیں واپس لئے جانے تک نافذ العمل رہیں گے ۔

نئی ترمیم کے بعد کوئی بھی عدالت فورم یا ایجنسی واپس ملنے والے مقدمے پر مزید کاروائی کے لیے اپنے متعلقہ قوانین کے تحت پرانے یا نئے گواہان کے ریکارڈ کرنے یا دوبارہ ریکارڈ کرنے کی مجاز ہوگی۔

نیب ایکٹ کی سیکشن 5 کے تحت آنے والی تمام زیر التوا انکوائریز ، تحقیقات اور ٹرائل مزید کاروائی صرف متعلقہ اداروں کے قوانین کے تحت ہوسکے گی چیئرمین نیب کی غیر موجودگی یاکسی وجہ سے ذمہ داریوں کی ادائگی سے معذوری پر ڈپٹی چیئر مین نیب کی زمہ داریاں سنبھالنے کا مجاز ہوگا ،کسی بھی وجہ سے ڈپٹی چیئرمین کی عدم دستیابی پر وفاقی حکومت نیب کے سنیئر افسران میں سے کسی ایک کو قائم مقام چیئرمین نیب مقرر کرنے کی مجاز ہوگی۔

قبل ازیں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڈ نے قومی احتساب بیورو(نیب) قانون میں ترامیم پیش کیں اور اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات بڑی تکلیف دہ ہے کہ صدر مملکت نے خط میں لکھا کہ کہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اس لیے قانون سازہ ادارہ قانون سازی نہ کرے۔

انہوں نے کہا کہ کوئی ادارہ یہ اختیار نہیں رکھتا کہ اس بالا ایوان کا قانون سازی کے اختیار کو روکے، اس پر قدغن لگائے یا وہ کہے کہ یہ قانون سازی نہیں ہونی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ صدر مملکت پارلیمان کا حصہ ہیں اور انہیں آئین میں دیے گئے اختیارات کا ادراک نہیں ہے کہ اس بالا اور معزز ایوان کے اختیارات کلی اور یکتا ہیں، جس پر کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں ہے۔

نیب ترامیم کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جب یہ ترامیم قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہوئی تھی تو وضاحت کی تھی کہ یہ پروسیجرل طرز کی ہیں، مقدمات جب نیب کے نئے قانون کے تحت نیب کے دائرہ اختیار سے نکلے تو ان کو متعلقہ فورم پر بھجوانے کے لیے چند مسائل سامنے آرہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بھی دیکھنا تھا کہ عدالت سے ریفرنس واپس آیا تو اس پر عدالت کا ہی کردار ہو تاکہ آرٹیکل 175 میں اختیارات کی تقسیم کے حوالے سے عدالیہ کیے اختیارات میں مداخلت نہ ہو۔اعظم نذیر تارڈ نے کہا کہ پارلیمان ہی وہ ادارہ ہے جس کا ظرف بڑا ہے، ہم نے آج تک اس ادارے کے اختیارات میں مداخلت نہیں کی لیکن وہاں سے روز مداخلت ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پوری احتیاط کی کہ عدلیہ کی آزادی کے بنیادی اصولوں پر سمجھوتہ نہ ہو اور ان ترامیم صرف وہ پروسیجرل چیزیں درست کی گئیں اور جو سڑکوں پر کھڑے ہو کر تقریریں کرتے تھے اب وہ خود اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ ترمیم واضح ہے کہ کوئی بھی جرم ختم نہیں ہوا بلکہ فورم تبدیل کیا گیا ہے، جو جرائم نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں ہیں وہ اس ترمیم کے بعد متعلقہ فورمز پر جائیں گے۔وزیرقانون کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ سے کام میں کچھ رکاوٹ آگئی تھی، اس لیے سہولت دینے کے لیے مزید یہ ترامیم کی گئی ہیں اور ایوان مذکورہ ترامیم کا بل منظور کیا جائے۔

وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڈ نے نیب ترامیم ایکٹ 2023 میں مزید ترامیم پیش کیں اور مذکورہ ترامیم کثرت رائے منظور کرلی گئیں اور اسپیکر نے شق وار اس کی منظوری لی۔بل کی منظوری کے دوران جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کی طرف سے پیش کردہ ترامیم مسترد کر دی گئیں۔

سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ نیب کو ماضی میں مخالفین کے خلاف استعمال کیا گیا، احتساب صرف سیاست دانوں کا نہیں ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ نیب قانون ڈریکونئین قانو نہیں ہونا چاہیے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کے دانت بھی نہیں نکالنا چاہئیں، نیب کے چیئرمین کا تقرر قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے ہوتا ہے، یہ طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نیب چیئرمین کی تقرری کے اس قانون میں تبدیلی کی گئی تو مستقبل میں اسے موجودہ برسراقتدار جماعتوں کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڈ نے کہا کہ قوانین کے تحت ججوں اور جرنیلوں کے احتساب کا الگ طریقہ کار ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈپٹی چیئرمین اس لیے تعینات ہوتے ہیں کہ چیئرمین کی عدم موجودگی میں ڈپٹی چیئرمین نیب کی ذمہ داریاں ادا کر سکے۔ان کا کہنا تھا کہ جب چیئرمین ملک سے باہر ہوں اور ڈپٹی چیئرمین بھی نہ ہوں تو اس صورت میں وفاقی حکومت تعیناتی کر سکتی ہے۔

مشترکہ اجلاس نے اعضاؤعضلات کی پیوندکاری ترمیمی بل تربیت یافتہ نیم طبی عملہ کی سہولت کے بل 2019 ، دن کے اوقات میں بچوں کی نگہداشت کے مراکز بل 2019 ،رخصت برائے مادری و پدریت بل 2020 ، الیکٹرانک جرائم کے تدارک سے متعلق فوجداری قوانین ترمیمی بل خصوصی ریلیف ترمیمی بل 2022 منظور کر لیا۔

بعدازاں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس 10جولائی تک ملتوی کر دیا گیا ۔

Share your love

Stay informed and not overwhelmed, subscribe now!