Enter your email address below and subscribe to our newsletter

سینیٹ خزانہ کمیٹی نےبرانڈڈ کپڑوں پر سیلز ٹیکس ریٹ بڑھانے کی مخالفت کردی

Share your love

اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ برائے خزانہ نے برانڈڈ کپڑوں اور آئٹمز سیلز ٹیکس ریٹ 12 سے بڑھا کر 15 فیصد کرنے کی مخالفت کردی۔

سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت سینیٹ کی خزانہ کمیٹی کا اجلاس ہوا۔

سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آرہا ایف بی آر کا ہدف کیسے حاصل کیا جائے گا، جی ڈی پی کی شرح منفی ہے حکومت نے مثبت 0.29 فیصد دکھائی ہے، اگلے مالی سال 3.5 فیصد کا ہدف کیسے حاصل کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ برآمدات کی سمت کا تعین ابھی تک نہیں ہوا ایف بی آر کا ہدف کیسے حاصل ہوگا، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے پیسے کہاں سے آئیں گے۔

سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ کیا ہمیں اپنے اخراجات کیلئے مزید قرضے لیکر اخراجات کرنے پڑیں گے، ٹیکس دہندگان پر مزید ٹیکس کا بوجھ ہر طرف سے ڈالا جارہا ہے، 12 یا 13 جماعتی حکومت ہے آپ کی آپ کرسکتے ہیں، جو جماعت حکومت سے باہر ہے اس کے ساتھ بھی آپ بات کرسکتے ییں، میثاق معیشت کے لئے بات چیت کرنی چاہیے۔

وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے جواب دیا کہ تمام حکومتوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ بنیادی تبدیلیاں کرتے، سیلاب سمیت آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں تاخیر سے مسائل بڑھے، اس بجٹ میں حکومت نے شرح نمو کے ڈرائیورز کی نشاندہی کی ہے، ان ڈرائیورز کے ذریعے آنے والے مالی سال میں 3.5 فیصد شرح نمو حاصل کی جائے گی۔

عائشہ غوث پاشا نے مزید کہا کہ زراعت کے شعبے پر نئے مالی سال کے بجٹ میں خصوصی توجہ دی جائے گی، بیج سمیت زرعی مشینری پر ٹیکس چھوٹ اور شرح میں کمی کی گئی ہے، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار پر حکومت نے فوکس رکھا ہے، حکومت نے بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات زر پر مراعات دی ہیں، پبلک سیکٹر سرمایہ کاری کے ذریعے نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت جن شعبوں پر توجہ دے رہی اس کے ذریعے روزگار ملے گا، ملک میں ہونے والی مہنگائی عالمی مہنگائی کی وجہ سے ہے، عالمی مہنگائی کی کمی کے بعد پاکستان میں بھی مہنگائی میں کمی ہوئی، ایف بی آر نے 223 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کی تجویز دی ہے، 88 فیصد نئے ٹیکس ایسے ہیں جو براہ راست ٹیکس ہیں، ایف بی آر کے نئے ٹیکس مہنگائی کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہونگے۔

عائشہ غوث پاشا نے بتایا کہ وزیر اعظم سمیت دیگر جماعتوں کے لیڈرز میثاق معیشت کیلئے سنجیدہ ہیں، وزیر اعظم جب اپوزیشن لیڈر تھے اس وقت کی حکومت کو میثاق معیشت کی دعوت دی تھی، آئی ایم ایف کا مطالبہ یہ تھا پرائمری سرپلس ہونا چاہیے جو نئے بجٹ میں ہے، آئی ایم ایف سبسڈیز کے مخالفت کرتا ہے جس کو اس بجٹ میں کم کیا ہے، زراعت پر انکم ٹیکس صوبائی حکومتیں جمع کرتی ہیں۔

چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد نے بریفنگ دی کہ ایف بی آر نے 223 ارب روپے ٹیکس اقدامات نئے مالی سال کیلئے تجویز کئے ہیں، 23 ارب روپے کے ریلیف ٹیکس اقدامات نئے مالی سال کیلئے تجویز ہیں، 200 ارب روپے کے نئے ٹیکس ہیں جس میں سے 175 ارب کے براہ راست ٹیکس ہیں، حکومت نے ایک لاکھ ڈالر ملک کے باہر سے لانے کی اجازت دی ہے۔

چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ 2018 میں 1 کروڑ روپے تک باہر سے لانے کی اجازت دی تھی، 2019 میں اس کو کم کرکے 50 لاکھ روپے کردیا گیا تھا، نئے مالی سال کیلئے اس کو روپے کے بدلے ڈالرز میں کردیا گیا اور حد ایک لاکھ ڈالر رکھی گئی ہے، یہ تجویز فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے قواعد کے مطابق ہے جس سے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔

اجلاس میں برانڈڈ کپڑے اور آئٹمز پر ٹیکس 12 سے 15 فیصد کرنے کا معاملہ زیر بحث آیا۔

حکومتی سینیٹر سعدیہ عباسی نے برانڈڈ کپڑوں پر سیلز ٹیکس بڑھانے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں کس ملک میں 18 فیصد سیلز ٹیکس ہے۔

وزیر مملکت خزانہ نے جواب دیا کہ لوگ عام کپڑے پہننا شروع کریں، حکومت ٹیکس اکھٹا کرنے کیلئے ایسے اقدامات کررہی ہے، کینیڈا میں سیلز ٹیکس 18 فیصد عائد ہے۔

سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ آپ ہمیں کینیڈا کی معیشت دے دیں ٹیکس لگائیں۔

بعد ازاں کمیٹی نے متفقہ طور پر سیلز ٹیکس ریٹ 12 سے بڑھا کر 15 فیصد کرنے کی مخالفت کردی۔

Share your love

Stay informed and not overwhelmed, subscribe now!