Enter your email address below and subscribe to our newsletter

پاکستان اور جاپان ایک مستحکم، محفوظ اور خوشحال افغانستان کےلئے کردار ادا کر سکتے ہیں،بلاول بھٹو

Share your love

اسلام آباد:وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان اور جاپان ایک مضبوط اور موثر انفراسٹرکچر نیٹ ورک تشکیل دے کر علاقائی رابطوں کو فروغ دے سکتے ہیں جس سے نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے میں تجارتی حجم کو بڑھایا جاسکتا ہے، پاکستان اور جاپان ایک مستحکم، محفوظ اور خوشحال افغانستان میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔

جاپان میں ایشین ڈویلپمنٹ بینک انسٹی ٹیوٹ میں ”ایشیائی تناظر میں پاکستان اور جاپان“ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اور جاپان براعظم ایشیا کے مختلف کونوں میں واقع ہیں تاہم خطے کے لیے ان کے نقطہ نظر اور وژن میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ایک ترقی پذیر ملک کے طور پر سنگین اقتصادی اور ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا ہے، پاکستان کے پاس سرد جنگ کی طرز کی بلاک سیاست کے لیے وقت نہیں ہے، ہم اپنے 230 ملین لوگوں کو روزگار اور خوشحالی کی فراہمی پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم وسطی اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر اپنے اسٹریٹجک محل وقوع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اقتصادی رابطوں کو فروغ اور شرح نمو کو بڑھاسکتے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کو بہتر رابطے کے لیے اس وژن کا ایک اہم حصہ سمجھتے ہیں، پاور سیکٹر میں چینی سرمایہ کاری پاکستان کے لیے اس وقت کارآمد ثابت ہوئی جب ملک بھر میں بجلی کی بندش کا سامنا تھا جس نے صنعتوں کو مفلوج کر دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک اور دیگر چینی منصوبوں کے نتیجے میں پاکستان کے صنعتی، زرعی اور توانائی کے شعبوں میں پیدا ہونے والے مواقع کسی ایک ملک کے لیے مخصوص نہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جاپانی فرموں کو پاکستان میں کامیابی اور منافع کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ ہے، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں ان کی مہارت کسی سے پیچھے نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور جاپان کے درمیان اقتصادی تعاون وسیع اور کثیر جہتی ہے جس کے نتیجے میں مشترکہ خوشحالی اور ترقی ہو سکتی ہے، دونوں ملکوں کے درمیان تجارت، سرمایہ کاری، زراعت، بنیادی ڈھانچے اور خدمات میں تعاون کے بے پناہ امکانات ہیں۔

وزیرخارجہ نے کہا کہ پاکستان اور جاپان کے درمیان ایک اور تکمیلی حیثیت بھی مشترک ہے کیونکہ دونوں اہم اور دور دراز سمندری مفادات کے حامل ساحلی ریاستیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو طویل عرصے سے بحیرہ عرب کی سیکیورٹی میں ایک اسٹیک ہولڈر کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان نے کثیر القومی کمبائنڈ ٹاسک فورس 150 کی کئی بار قیادت کی ہے، پاکستان کے معاشی مقاصد کے حصول کے لیے بلیو اکانومی کی ترقی بہت ضروری ہے، ہم جاپان کی مدد سے اس شعبے میں بہت آگے جانے کی امید کرتے ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ جب تک جنوبی ایشیاء میں دیرپا امن و استحکام برقرار رہے گا، علاقائی روابط اور تجارت کی خواہشات پوری نہیں ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا موقف ہمیشہ واضح رہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک خطے کا بنیادی تنازعہ جموں و کشمیربات چیت کے ذریعے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کے اصولوں کے مطابق حل نہیں ہو جاتا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ اس تنازعہ کے تصفیہ کے لیے کام کرنے کے لیے تیار ہے، افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے پاس جنوبی ایشیا میں امن کے لیے کوئی شراکت دار نہیں ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت مذہبی جنون کی لپیٹ میں ہے جس نے بات چیت اور سفارت کاری کے لیے جگہ بند کردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات حیرت انگیز اور مایوس کن کہ کشمیر میں بھارت کے ظلم و ستم اور ایک بہت چھوٹے پڑوسی کے خلاف اس کی اشتعال انگیزیوں پر عالمی برادری خاموش ہے۔

افغانستان کے بارے میں انہوں نے کہا کہ پاکستان اور جاپان کے افغانستان میں ایک جیسے مفادات ہیں، افغانستان کے امن اور استحکام میں دونوں ممالک کے مفادات ہیں، جاپان افغانستان کے سب سے مستحکم اقتصادی شراکت داروں میں سے ایک رہا ہے جس کی تاریخ اس وقت سے ہے جب اس نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے 2002 میں ٹوکیو کانفرنس کی میزبانی کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ حال ہی میں جاپان نے افغان عوام کو اہم امداد فراہم کی ہے کیونکہ وہ سنگین انسانی اور معاشی بحرانوں کا شکار ہیں، پاکستان اور جاپان ایک مستحکم، محفوظ اور خوشحال افغانستان میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ترقیاتی امداد میں جاپان کی مہارت اور افغانستان سے پاکستان کی جغرافیائی قربت انسانی امداد کی فراہمی اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے کے لیے مشترکہ کوششوں کے مواقع پیدا کرسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ علاقائی اقدامات پر تعاون کرتے ہوئے پاکستان اور جاپان سارک کی ترقی کو بھی متحرک کر سکتے ہیں، مشترکہ کوششیں قریبی تعاون کو فروغ دینے، علاقائی استحکام کو بڑھانے اور سارک کے رکن ممالک کی غیر استعمال شدہ صلاحیتوں کو کھولنے میں مدد کرسکتی ہیں جس سے پورے خطے کے لیے مشترکہ ترقی اور خوشحالی ہوگی۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اور جاپان علاقائی اہمیت کے مسائل خصوصاً تنازعات کے حل، غربت کے خاتمے، موسمیاتی تبدیلیوں اور عالمی صحت کے بارے میں اپنا کردار اداکرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال پاکستان میں تباہ کن سیلاب نے یہ ثابت کیا کہ پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ موسمیاتی خطرات سے دوچار ممالک میں سے ایک ہے، اس قدرتی آفت کے بعد پاکستان نے بین الاقوامی توجہ ان ممالک کی حالت زار کی طرف مبذول کرائی جو موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہیں، ہم نے نومبر 2022 میں شرم الشیخ میں منعقدہ COP27 میں لاس اینڈ ڈمیج فنڈ کے قیام کو کامیابی سے آگے بڑھانے میں جی 77 ممالک کی قیادت کی۔

انہوں نے کہا کہ ہم کانفرنس میں شامل ہونے اور پاکستان میں سیلاب کے بعد کی تعمیر نو اور بحالی کے لیے 77 ملین ڈالر کی امداد کے عزم پر جاپان کے شکر گزار ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ زلزلہ زدہ ممالک میں ہوتا ہے، پاکستان میں کئی فالٹ لائنز اسے خاص طور پر زلزلوں کے لیے حساس بناتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یقیناً جاپان اپنے ابتدائی انتباہی نظام اور آفات کے خطرے کو کم کرنے کی کوششوں کے لیے مشہور ہے، پاکستان کو اس حوالے سے جاپان کے تجربے اور مہارت سے سیکھنے کی امید ہے۔

انہوں نے کہا کہ دیگر ایشیائی ممالک کی طرح پاکستان ٹیکنیکل انٹرن ٹریننگ پروگرام اور جاپان کے مخصوص ہنر مند ورکرز پروگرام سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، پاکستان سے جاپان کو ہنر مند لیبر کی برآمد جاپان کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، پاکستان کے پاس انتہائی ہنر مند پیشہ ور افراد بڑی تعداد میں ہیں۔

وزیرخارجہ نے ایشیائی ترقیاتی بینک کی بھی تعریف کی جس نے ایشیائی ممالک کی ترقی اور مالیاتی اداروں کو بنانے میں قابل تعریف کردار ادا کیا۔

Share your love

Stay informed and not overwhelmed, subscribe now!