کربلا درسگاہ ِتسلیم ورضا
Share your love
تحریر:فہیم خان
تاریخ بشری اور تاریخ اسلام میں جنگ اور جہاد کے بہت سے واقعات پائے جاتے ہیں۔ لیکن ان میں سے بعض واقعات تاریخ کے صفحوں میں جاویدانی زندگی اختیار کر لیتے ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں مٹا نہیں سکتی یہ وہ واقعات ہیں جو تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نقش ہوگئے ہیں اوران میں واقعہ کربلا اس لازوال رنگ الٰہی میں رنگین ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں قرآن کریم صبغ اللہ یعنی رنگ خدائی سے یاد کرتاہے۔
کربلا ایک ایسی عظیم درسگاہ ہے جس نے بشریت کو زندگی کے ہر گوشہ میں درس انسانیت دیا ہے اور ہر صاحب فکر کو اپنی عظمت کے سامنے جھکنے پر مجبور کردیا ہے۔ کربلاکی تعلیمات ہر انسان کے لیے ابدی زندگی کا سرمایا ہیں ۔ کربلا والوں کا ایسا کون سا عمل ہے جو دوسروں کے بہ نسبت خاص امتیاز کاحامل ہے ، جہاں ہمیں کربلا کے میدان میں عظمت اعمال و کردار کے بہت سے نمونے نظر آتے ہیں ان میں ایک نہایت اہم صفت ان کی آپس میں ایک دوسرے کے لئے محبت وایثار کا پایا جانا ہے۔ شہداء کربلا کی زندگی کے ہر ہر مرحلہ پر، ہر ہر منزل پر ایثار وقربانی کی ایسی مثالیں موجود ہیں جس کی نظیر تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔
عرفان کے بلند ترین مراتب میں سے ایک مرتبہ رضا کا ہے۔ رضا ، خدا کی نسبت انتہائی محبت اور عشق کی علامت بھی ہے اور کمال اخلاص اور استحکام ارادہ و عمل کی دلیل بھی ہے۔ تحریک کربلاکا سب سے اہم درس آزادی، حریت اور ظلم و استبداد کے آگے نہ جھکنا ہے۔کربلاکے پیغامات میں سے ایک پیغام ، پیغام وفا ہے جو کبھی بھی دنیا کے وفا دار اور وفا دوست افراد کے ذہنوں سے محو نہیں ہو سکتا۔
اہلبیت نے بر بنائے رضا ہر بلا اور مصیبت کو خندہ پیشانی سے برداشت کر لیا اور اگر ایسا نہ ہوتا تو ہر گز شجرہ دین استوار اور پر ثمر نہ ہو پاتا۔ درس کربلا یہ ہے کہ ہم اپنے ہر کام میں مقصد اور ہدف کو خالص کریں۔ اور یہ جان لیں کہ خدا کی بارگاہ میں وہی عملی جاودانہ ہے جو رنگ خدائی رکھتاہو اور یہی راز ہے تاریخ بشریت میں کربلا کی بقا کا۔ اس سے زمانے کے گذرنے کے ساتھ ساتھ اس میں نہ صرف کوئی کمی واقع نہیں ہو پا رہی ہے بلکہ دن بدن اس تحریک کے دامن وسعت میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا کربلا کسی مسلک کی تھی، کیا امام عالی مقام حضرت حسین کسی ایک خاص فرقہ کے ہیں ؟ نہیں! امام حسین اور رسولﷺ کے خانوادے کا صرف اسلام پر نہیں پوری کائنات پر حشر تک کے لئے احسان ہے، ورنہ غریب زندہ نہ رہتا اور ملوکیت ہر عہد میں اپنا خراج وصول کرتی رہتی۔
محرم 61 ہجری کو کربلا ختم نہیں بلکہ شروع ہوئی تھی اور آج بھی ہر وقت کے یزید کو شکست دینے کے لئے حوصلہ ہمیں کربلا سے ہی ملتا ہے، کربلا جس نے قلت و کثرت کے معنی بدل دیئے، جس نے حق و باطل کا معیار طے کر دیا اور جس نے بے زبان کو زبان دی اور کربلا پر جو جان دیتا ہے کربلا اس کو تا ابد زندہ جاوید رکھتی ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام کی محبت عطا فرمائے اور ان کی سیرت کے مطابق اپنے اعمال و احوال کو سنوارنے کی توفیق مرحمت فرمائے،امین !۔