توشہ خانہ کیس،مختصر سزا ہے جو بغیر نوٹس بھی معطل ہو جاتی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ
Share your love
اسلام آباد:اسلام آباد ہائیکورٹ میں توشہ خانہ کیس میں چیئرمین تحریک انصاف کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت میں بتایا ہے کہ عمران خان کی سزا میں چھ ماہ کی کمی ہوگئی۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو دی جانے والی یہ مختصر سزا ہے جو بغیر نوٹس بھی معطل ہو جاتی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے استدعا کی کہ عدالت سزا معطل کرے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ہمیں سپریم کورٹ کا آرڈر ملا ہے، ماتحت عدلیہ سے غلطی ہوئی ہے تو اس کو اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو ٹرائل کورٹ نے تین سال کی سزا سنائی، صدر پاکستان نے 14 اگست کو قیدیوں کی چھ ماہ سزا معاف کی، اس طرح چیئرمین پی ٹی آئی کی چھ ماہ کی سزا معاف کی جا چکی۔
لطیف کھوسہ نے دلائل دیے کہ دائرہ اختیار کو طے کیے بغیر کارروائی آگے بڑھائی ہی نہیں جاسکتی، چیئرمین پی ٹی آئی کی تین گراؤنڈز پر سزا معطلی کے لیے دلائل دوں گا، سب سے پہلے عدالت نے دائرہ اختیار کو طے کرنا ہے۔
ٹرائل کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم نامہ کو نظر انداز کیا، اور دائرہ اختیار کے معاملے پر تیسری بار بھی فیصلہ نہیں دیا، اس کیس میں سیکرٹری الیکشن کمیشن ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کو اتھارٹی دے رہا ہے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن چیف الیکشن کمشنر اور چار ممبران پر مشتمل ہوتا ہے، الیکشن کمیشن کا کمپلینٹ دائر کرنے کا اجازت نامہ قانون کے مطابق نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کو آٹھ سوالات پر دوبارہ فیصلہ کرنے کا حکم دیا، مگر ٹرائل کورٹ نے اُن سوالات کا جواب دیے بغیر اپنے پہلے آرڈر کو ہی درست قرار دیا، ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بہت خامیاں ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کو کیس قابلِ سماعت ہونے پر دوبارہ دلائل سننے کا حکم دیا، ٹرائل کورٹ نے ہائیکورٹ کے جج کے فیصلے کی خلاف ورزی کی۔
لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ کمپلینٹ ٹرائل کے لیے ڈائریکٹ سیشن جج کے پاس نہیں جا سکتی، قانون میں طریقہ کار دیا گیا ہے کہ کمپلینٹ پہلے مجسٹریٹ کے پاس جائے گی، ٹرائل کورٹ کا آرڈر غلطیوں کے باعث برقرار نہیں رہ سکتا، استدعا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطل کر دی جائے۔
جسٹس طارق جہانگیری نے پوچھا ٹرائل کورٹ نے دفاع کے گواہوں کو کس بنیاد پر غیر متعلقہ کہا؟۔
وکیل نے جواب دیا کہ ٹرائل کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے گواہوں کو غیرمتعلقہ قرار دینے کی وجہ لکھی ہی نہیں، گواہوں کو جانچے بغیر انہیں اُسی روز غیرمتعلقہ قرار دیا، کیا فوجداری تاریخ میں ایسا کبھی ہوا ہے؟۔
سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ ملزم کو اپنے دفاع میں گواہ پیش کرنے سے روکا ہی نہیں جا سکتا، ایک شخص اپنا دفاع پیش کر رہا ہے آپ کیسے اُسے روک سکتے ہیں، چار گواہ تو پیش کر رہے تھے کوئی چالیس تو نہیں تھے، ٹرائل کورٹ کے فیصلے سے چیئرمین پی ٹی آئی کے آئینی حقوق متاثر ہوئے۔
لطیف کھوسہ نے دلائل مکمل کرتے ہوئے بتایا کہ عمران خان کے وکیل خواجہ حارث صاحب 12 بج کر 15 منٹ پر ٹرائل کورٹ پہنچ گئے، جج صاحب نے کہا اب ضرورت نہیں، آپ آرڈر سنیں، 12 بج کر 30 منٹ پر جج صاحب نے شارٹ آرڈر سناتے ہوئے تین سال کی سزا سنا دی، 12 بج کر 35 منٹ پر پتہ چلا لاہور پولیس گرفتار کرنے پہنچ گئی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حق دفاع سے متعلق چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ کے سنگل بینچ میں زیر سماعت ہے اور سپریم کورٹ میں بھی زیر سماعت ہے ، سپریم کورٹ اور سنگل بینچ میں زیر سماعت ہونے کی وجہ سے یہ بینچ اس معاملے پر کوئی آبزرویشن نہیں دے سکتا۔
اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ بینچ تو سپریم کورٹ اور سنگل بینچ کے درمیان سینڈوچ ہوگیا۔
وکیل امجد پرویز نے تیاری کے لئے قلیل مدت دینے کا شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے گوشواروں میں چار بکریاں ظاہر کیں لیکن باقی متعلقہ چیزیں ظاہر نہیں کیں ، یہ ٹیکس ریٹرن کا نہیں، غلط ڈیکلریشن کا کیس ہے، سزا یافتہ شخص اب اسٹیٹ کی قید میں ہے اس لئے فریق بنانا ضروری ہے۔
وکیل امجد پرویز نے کیس میں اسٹیٹ کو بھی نوٹس جاری کرنے کی استدعا کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ کم دورانیے کی سزا میں بغیر نوٹس بھی سزا معطل ہو جاتی ہے۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔