Enter your email address below and subscribe to our newsletter

امید ہے چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی کی درخواست پر آج ہی فیصلہ ہوجائے گا، اسلام آباد ہائی کورٹ

Share your love

اسلام آباد: چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ امید ہے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی سزا معطلی کی درخواست پر آج ہی فیصلہ ہوجائے گا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل بینچ کے روبرو سماعت ہوئی۔ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ اور الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ ملاقات والی درخواست پر آرڈر کردیں اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ امید ہے آج ویسے ہی سزا معطلی کی درخواست طے ہوجائے گی۔

الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے دلائل میں کہا کہ کیس میں پبلک پراسیکیوٹر کو بھی نوٹس کیا جانا ضروری ہے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ شکایت تو الیکشن کمیشن نے فائل کی تھی ریاست نے نہیں، ٹرائل کورٹ میں آپ نے یہ بات نہیں کی آج آپ پہلی بار یہ بات کہہ رہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے بھارتی سیاست دان راہول گاندھی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت میں راہول گاندھی کیس میں پرائیویٹ کمپلینٹ کیس میں دو سال کی قید تھی، راہول گاندھی نے سزا معطلی کی درخواست دائر کی جو خارج کر دی گئی، عدالت نے فیصلہ دیا کہ سزا معطل کرنا کوئی ہارڈ اینڈ فاسٹ رول نہیں ہے۔

امجد پرویز نے دلائل میں کہا کہ ضابطہ فوج داری میں سزا معطلی کی درخواست میں شکایت کنندہ کو فریق بنانے کا ذکر نہیں، استدعا ہے کہ عدالت درخواست میں ریاست کو نوٹس جاری کرے، ریاست کو نوٹس جاری کیے بغیر اور موقف سنے بغیر سماعت آگے نہ بڑھائی جائے، راہول گاندھی کیس میں فیصلہ ہوا تھا کہ پبلک پراسیکیوٹر کو سننا ہے یا نہیں۔

دوران سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل کی جانب سے ظہور الہی کیس کا بھی حوالہ دیا گیا، امجد پرویز نے کہا کہ میں ابھی ان کی سزا معطلی کی درخواست کی مخالفت کر ہی نہیں رہا میں تو ابھی صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ اس طرف جانے سے پہلے پبلک پراسیکیوٹر کو نوٹس کیا جانا لازمی ہے۔

انہوں ں ے کہا کہ ہمارے ہاں کم از کم سزا ایک سال جبکہ بھارت میں کم سے کم سزا تین سال ہے، سزاوٴں کے حوالے سے ہمارے اور بھارت کے قوانین میں بہت فرق ہے۔

دوران سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے دیے اور عدالت سے پبلک پراسیکیوٹر کو نوٹس جاری کرنے کی استدعا کردی۔ امجد پرویز نے کہا کہ ہمارے ہاں قانون ہے کہ ایک سال کی سزا ہو تو سزا سنانے والی عدالت فوری اسے معطل کرسکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کیسز میں کمپلیننٹ کو کبھی پارٹی نہیں بنایا جاتا، نیب کے قانون میں پراسیکیوٹر کی تعریف کی گئی ہے، نیب کیس میں اسٹیٹ آتی ہی نہیں ہے، نیب پراسیکیوٹر کو سنا جاتا ہے، ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ نیب کو سنے بغیر کوئی آرڈر کیا جائے، فوج داری کیس میں اسٹیٹ کو نوٹس ہونا ضرورت ہے، قانون میں شکایت کنندہ کا لفظ ہی نہیں ہے، اسٹیٹ کا ذکر ہے۔

امجد پرویز نے عمران خان کی اپیل میں اٹھائے گئے اعتراضات کا جواب دیے اور اسٹیٹ کو نوٹس کرنے کی استدعا کی جس پر عدالت نے انہیں دلائل آگے بڑھانے کی ہدایت کردی۔

امجد پرویز نے کہا کہ اپیل کنندہ نے بھی یہ اعتراض نہیں اٹھایا کہ سیشن کورٹ ٹرائل کی مجاز نہیں، وہ کہتے ہیں کہ ٹرائل سیشن کورٹ کو ہی کرنا ہے مگر کمپلینٹ پہلے مجسٹریٹ کے پاس جانی چاہیے، الیکشن کمیشن کی شکایت درست فورم پر دائر نہ ہونے کا اعتراض اٹھایا گیا، کرپٹ پریکٹسز کے خلاف اِس قانون کے تحت تمام شکایات سیشن عدالت میں دائر ہوئیں، اگر مجسٹریٹ کی اسکروٹنی والی بات مان بھی لی جائے تو ٹرائل سیشن عدالت کو ہی کرنا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مجسٹریٹ کو طے کرنا ہے کہ سیشن عدالت کا دائرہ اختیار بنتا ہے یا نہیں؟ آپ کہہ رہے ہی کہ اگر یہ غلطی ہے بھی تو وہ ٹرائل کو خراب نہیں کرے گی۔

وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے کہا کہ یہ کوئی نیا قانون نہیں بلکہ ہمیشہ سے موجود رہا ہے، کوئی ایک ایسا فیصلہ موجود نہیں جہاں کرپٹ پریکٹیسز کی شکایت مجسٹریٹ کے پاس دائر ہوئی ہو، میں ایک آئینی ادارے کے وکیل کے طور پر عدالت کے سامنے کھڑا ہوں، دوسرے فریق نے کہا کہ شکایت درست فورم پر دائر نہ ہونے کے باعث برقرار نہیں رہ سکتی، یہ بات درست نہیں ہے، بلکہ صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔

Share your love

Stay informed and not overwhelmed, subscribe now!