امریکی صدر بائیڈن کے خلاف غزہ میں نسل کشی میں ملوث ہونے کا مقدمہ دائر
Share your love
واشنگٹن: امریکہ میں انسانی حقوق کے ایک گروپ نے صدر جو بائیڈن اور ان کی کابینہ کے دو ارکان کے خلاف غزہ میں “اسرائیلی حکومت کی نسل کشی کو روکنے میں ناکامی اور اس میں ملوث ہونے” پر مقدمہ دائر کر دیا ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق شہری آزادیوں کے گروپ کی ویب سائٹ پر ایک بیان کے مطابق نیویارک میں قائم مرکز برائے آئینی حقوق (سی سی آر) نے فلسطینی انسانی حقوق کی تنظیموں اور غزہ اور امریکا کے فلسطینیوں کی جانب سے تینوں اہلکاروں کے خلاف مقدمہ دائر کیا۔
بائیڈن، سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن، اور سیکریٹری دفاع لائڈ آسٹن کے خلاف وفاقی شکایت میں کہا گیا ہے کہ وہ “غزہ میں فلسطینی عوام کی نسل کشی کو روکنے میں نہ صرف ناکام رہے ہیں بلکہ اسرائیلی حکومت کو غیر مشروط فوجی اور سفارتی حمایت فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھ کر، فوجی حکمت عملی پر قریبی رابطہ کاری، اور اسرائیل کی بے دریغ اور بے مثال بمباری مہم اور غزہ کا مکمل محاصرہ روکنے کے لیے بین الاقوامی برادری کی کوششوں کو کمزور کر کے سنگین جرائم کو آگے بڑھانے میں مدد فراہم کی ہے۔”
سی سی آر نے کہا کہ “صدر، بلنکن، اور لائڈ نے تب سے “اسرائیل کو 14.1 بلین ڈالر کا اضافی فوجی ہارڈویئر فراہم کرنے، طیارہ بردار بحری جنگی گروپوں کی تعیناتی، اور اسرائیل کے دفاع میں مدد کے لیے خطے میں امریکی افواج کی تعداد میں اضافہ کرنے کے لیے کانگریس سے منظوری طلب کی ہے۔”
رپورٹس کے مطابق مقدمے میں امریکا کی طرف سے اسرائیل کو بھیجی جانے والی 3.8 ارب ڈالرز کی سالانہ فوجی امداد کو بھی ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق لیلیٰ الحداد نامی ایک امریکی شہری بھی اس مقدمے کی مدعی ہیں جنہوں نے اسرائیل کے حملے میں غزہ میں اپنے 5 رشتے داروں کو کھو دیا ہے۔
خیال رہے کہ 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حماس کے جوابی حملے کے بعد امریکی صدر جوبائیڈن نے اسرائیلی حکومت کے لیے اپنی غیر متزلزل حمایت کا اظہار کیا تھا۔