Enter your email address below and subscribe to our newsletter

کیا ۹ اپریل کو عمران خان ہارا تھا یا ۹ اپریل کو عمران خان کی اب تلک کی سب سے بڑی فتح ہوئ تھی؟ مراد سعید

Share your love

مراد سعید نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر نوٹ لکھتے ہوئے کہا ہے کہ جیسے آج آپ کے احساسات ہیں ۹ اپریل کی رات ہمارے بھی تھے۔ ہم نہیں جانتے تھے قوم کیا سوچ رہی ہے ہم نے جو سُنا تھا پچھلے اودوار کے بارے میں ہمیں ویسے ہی ردعمل کی توقع تھی۔ جو منظر آپ ٹی وی پر دیکھ کر ٹوٹے تھے ہم اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے تھے۔ ہمارے سامنے وہ اٹھا تھا اور خالی ہاتھ وزیر اعظم ہاؤس سے نکل گیا تھا۔ ہم دل شکستہ خود سے نظریں نا ملا پارہے تھے۔ پھر کیا ہوا؟ کیا ۹ اپریل کو عمران خان ہارا تھا یا ۹ اپریل کو عمران خان کی اب تلک کی سب سے بڑی فتح ہوئ تھی؟ آپ نے لکھی تھی عمران خان کی جیت کی عبارت۔ وہ یونہی آپ کے حوالے اپنی جنگ نہیں کرکے گیا۔ وہ ہمیشہ سے جانتا تھا کہ جس دن اللہ نے آپ کے دل اس کی جانب موڑے دنیا کی کوئ طاقت اس کو شکست نہیں دے سکے گی۔ اس کی جنگ کبھی بھی اقتدار کے لیے نہیں تھی۔ اس کی جنگ اقتدار کی ہوتی تو وہ پانچ مہینے سے ایک تنگ و تاریک کال کوٹھری میں اپنے تقوی کی ڈھال تلے نہ بیٹھا ہوتا۔ اس کی جنگ محظ طاقت کے حصول کی ہوتی تو وہ گولیاں کھا کر مسکراتے ہوئے آپ کا حوصلہ نہ بحال کرتا۔ اس کی جنگ وزیر اعظم کی کرسی کے لیے ہوتی تو اُس کرسی کو دوام دینے والے سارے مہرے اس کی آنکھوں کے سامنے ۹ اپریل کو سجنے والی بساط پر پڑے تھے اور ایک عرصے تک پڑے رہے تھے۔۔ اس کی جنگ کا مقصد ہمیشہ سے آپ کو ایک عظیم قوم بنانا تھا۔ وہ جس دن دنیا کے سامنے کھڑے ہو کر لا الہ الا للہ کہہ رہا تھا اسی منبر پر کھڑے کھڑے اس کے پیروں سے سانپ لپٹنے لگے تھے۔ پھر بھی اس کی للکار سست نہیں پڑی۔ وہ جب مغرب کی جمہور پسندی کے نقاب نوچ رہا تھا، تو اُن کے خون آشام دانتوں کو اس نے اپنی شہہ رگ پر تب ہی محسوس کرلیا تھا مگر اس نے آپ کا سر نیچا نہیں ہونے دیا۔ وہ جب اپنے نبی پاک (ص) کی حُرمت کے لیے آواز اٹھا رہا تھا تو بھی جانتا تھا کہ وہ آتشِ نمرود میں کود رہا ہے لیکن وہ مانتا تھا کہ اولادِ ابراہیم (ع) کو بس یہی شیوہ دیتا ہے۔ اور تاریخ کا سبق بھی یہی ہے کہ وقت کے یزید کتنے ہی طاقتور ہوں حسین (رض) کی للکار ان کی تلواروں سے زیادہ زور آور رہتی ہے۔ اُس کی جیت تو اُسی دن ہوگئ تھی جس دن آپ نے کوفی بننے سے انکار کردیا تھا۔ اب اپنی جیت کو امر آپ نے اُس للکار سے کرنا ہے جس کا درس حسین (رض) اپنے خون سے لکھ گئے ہیں۔ جو پیادے آج آپ کے سامنے ناخدا بنے بیٹھے ہیں ان میں کسی کا قد نہیں اُس کو شکست دینے کا۔ اُس کا مقابلہ خدائ کے دعویداروں سے ہے اور اِس مقابلے میں اُس کا ہتھیار آپ ہیں؛ خلقِ خدا۔ جہاں ابھی تک آپ کے قدم نہیں ڈگمگائے ویسے ہی اب آپ کی آواز نہیں کمزور پڑنی چاہئے۔ گلی، مُحلے، چوک، چوراہے میں آپ کی للکار گونجنی چاہئے۔ ہر دیوار، ہر مکان، ہر چوبارے پہ آپ کی پُکار نشر ہونی چاہئے۔ یہ ہم پر اُس آدمی کا قرض ہے جس نے تخت و تاج ٹھکرائے ہمارا سودا نہیں کیا۔ جس نے خنجر سہے، تیر کھائے ہم پر آنچ نہیں آنے دی۔ جس نے خود کو تاراج کردیا ہماری نسلوں کی آبادی کی خاطر۔ جو کشمیر سے لے کر فلسطین اور افغانستان تک کے مظلوموں کی آواز بنا۔ جو ہر اُس مسلمان کی آواز بنا کہ جس کے لیے اُس کے امن و آشتی کے مذہب کو تہمت بنا دیا گیا تھا۔ یاد رکھیں ہم اس کی جنگ میں اللہ کے بھروسے اترے تھے۔ اپنے ایمان کے سہارے ڈٹے رہے ہیں اور اب اپنے آباء کی میراث کو اپنے سینوں میں سمو کر اسے لڑیں گے۔ ہم نہیں جھکیں گے!!!!

Share your love

Stay informed and not overwhelmed, subscribe now!