Enter your email address below and subscribe to our newsletter

20 سال تک بنگلہ دیش پر حکمرانی کرنے والی شیخ حسینہ کون؟حکومت گرنے کی وجہ کیا بنی؟

Share your love

بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ مستعفی،آرمی چیف کا عبوری حکومت بنانے کا اعلان، احتجاج اور مظاہروں کی وجہ کیا بنی؟

بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ نے ملک میں جاری پرتشدد اور احتجاج کے بعد پیر کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے اور وہ ملک چھوڑ کربھارت چلی گئی ہیں۔

شیخ حسینہ کون ہیں ؟

بیگم شیخ حسینہ واجد کا پیدائشی نام حسینہ مجیب ہے۔ وہ 1947 میں مشرقی بنگال کے بنگالی شیخ خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد بنگالی قوم پرست رہنما شیخ مجیب الرحمن بنگلا دیش کے بانی اور سقوط مشرقی پاکستان کے اہم کردار تھے۔

حسینہ واجد کے والد 1954 میں پہلی بار وزیر بنے۔ 1950 کی دہائی میں ان کے والد شیخ مجیب الرحمن نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا بعد ازاں وہ قوم پرست تحریک کا حصہ بنے اور مشرقی پاکستان میں مرکزی حکومت کی مبینہ زیادتیوں کیخلاف سیاسی سرگرمیاں کا حصہ بنتے بنتے آخرکار مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی کے قائد بن گئے۔

سیاسی سرگرمیوں کا آغاز:

حسینہ مجیب نے 1966 اور 1967 کے درمیان ایڈن کالج میں طلبہ یونین کی نائب صدر منتخب ہونے کے ساتھ اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔
1967 میں حسینہ نے ایم اے واجد میاں سے شادی کی اور اس کے بعد سے وہ شیخ حسینہ واجد کہلاتی تھی۔ شیخ حسینہ واجد کے شوہر ایم اے واجد بنگالی جوہری سائنس دان تھے۔

پورے خاندان کا قتل:

شیخ حسینہ واجد، ان کے شوہر ایم اے واجد، بچوں اور بہن شیخ ریحانہ مجیب کے علاوہ ان کے پورے خاندان کو ان کے والد شیخ مجیب الرحمن سمیت 15 اگست 1975 بنگلہ دیش میں فوجی بغاوت کے دوران قتل کر دیا گیا۔ شیخ حسینہ واجد اور ان کی بہن ریحانہ والدین کے قتل کے وقت یورپ کے دورے پر تھیں، اس لیے وہ اس حملے میں محفوظ رہیں، انہوں نے مغربی جرمنی میں بنگلہ دیشی سفیر کے گھر پناہ لی۔ بعد ازاں بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کی طرف سے سیاسی پناہ کی پیشکش کی گئی اور ان کے خاندان کے زندہ بچ جانے والے افراد نے چھ سال تک نئی دہلی میں جلاوطنی کی زندگی گزاری۔

جلاوطنی سے وطن واپسی:

جنرل ضیاء الرحمٰن کی فوجی حکومت نے حسینہ واجد کو بنگلہ دیش میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔ 16 فروری 1981 کو عوامی لیگ کی صدر منتخب ہونے کے بعد حسینہ 17 مئی 1981 کو وطن واپس آئیں اور عوامی لیگ کے ہزاروں حامیوں نے ان کا استقبال کیا۔

عملی سیاست میں:

وطن واپس آنے کے بعد شیخ حسینہ واجد 1986ء سے 1988ء تک اور بعد ازاں 1991ء سے 1996ء تک اور پھر 2001ء سے 2006ء تک اپوزیشن لیڈر رہیں۔ 1996ء سے 2001ء تک اور 2009ء سے 2014ء تک وہ وزیر اعظم بنگلہ دیش رہیں۔ سال 2014 سے 5 اگست 2024 کو اقتدار سے بے دخلی تک حسینہ واجد مسلسل وزیر اعظم رہیں اور مجموعی طور پر 19 سال سے زائد عرصے تک حکومت کرکے وہ نہ صرف بنگلہ دیش کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک وزیر اعظم رہنے والی سیاستدان بنیں بلکہ دنیا کی سب سے طویل عرصہ حکومت کرنے والی خاتون وزیر اعظم بھی بنیں۔

حسینہ واجد کے مستعفی ہونے سے پہلے کب کیا ہوا؟

بنگلہ دیشی وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ اور دفتر پر حملوں کے علاوہ مظاہرین نے شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ کے کئی دفاتر کو نذرِ آتش کیا ہے۔ مشتعل افراد نے بنگ بندھو ایونیو پر واقع عوامی لیگ کے مرکزی دفتر پر دھاوا بول کر اسے نذرِ آتش کیا ہے۔ اب تک ان واقعات میں کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ سلہٹ میں ڈپٹی کمشنر اور پولیس سپریٹنڈنٹ کے دفاتر سمیت کئی سرکاری عمارتوں پر حملے کیے گئے اور وہاں آگ لگائی گئی۔ بعض سکیورٹی چیک پوسٹوں کے علاوہ کونسلر رضوان احمد کے گھر کو بھی آگ لگائی گئی۔

بنگلہ دیش کی سرحد متعدد مشرقی انڈین ریاستوں سے ملتی ہے۔ یہ ریاستیں گذشتہ کئی دہائیوں سے عسکریت پسندی کے خلاف لڑ رہی ہیں اور ایسے میں ڈھاکہ میں ایک ’فرینڈلی‘ حکومت اس میں مزید مددگار رہی ہے۔

اپنے دورِ اقتدار میں شیخ حسینہ واجد نے بنگلہ دیش میں بھارتی مخالف عسکریت پسند گروپس کے خلاف کارروائیاں کی، جس سے انہیں بھارت کی مزید حمایت حاصل ہوئی۔ انہوں ان بھارتی ریاستوں تک اشیا کی ترسیل یقینی بنانے کے لیے نئی دلی کو اپنی سرزمین کے استعمال کی اجازت بھی دی۔

سنہ 1996 میں پہلی بار منتخب ہونے کے بعد سے شیخ حسینہ کے بھارت سے قریبی تعلقات رہے، جس سے دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعلقات استوار رہے۔ سنہ 2022 میں بھارت کے دورے کے دوران انھوں نے بنگلہ دیش کے عوام کو یاد دلایا کہ کیسے انڈیا، اس کی حکومت، عوام اور افواج نے سنہ 1971 کی جنگ آزادی میں مدد فراہم کی۔

حزب اختلاف کی جماعتوں اور سماجی کارکنان نے شیخ حسینہ واجد کی انڈیا سے اس قربت پر تنقید کی اور انڈیا سے مطالبہ کیا کہ انڈیا صرف ایک سیاسی جماعت کی پشت پناہی کے بجائے بنگلہ دیشی عوام کی حمایت کرے۔

بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان سے جڑے ایک میوزیم میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی ہے اور اسے نذرِ آتش کیا گیا ہے۔ پیر کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق بعض مظاہرین وزیر داخلہ کی رہائش گاہ میں بھی داخل ہوئے اور وہاں توڑ پھوڑ کی۔ عینی شاہدین نے عمارت سے دھواں اٹھتا دیکھا ہے۔

گذشتہ ماہ جولائی میں سرکاری نوکریوں میں کوٹہ سسٹم کیخلاف شروع ہونے والی طلبہ کی تحریک میں اب تک مجموعی طور پر 300 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ملک بھر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔

شیخ حسینہ کے استعفے کے بعد بنگلہ دیشی فوج کے سربراہ نے قوم سے خطاب میں کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں عبوری حکومت قائم کی جائے گی جس کیلئے بات چیت جاری ہے۔ ہمارے ساتھ تعاون کریں، ہم ساتھ مل کر ایک بہتر مستقبل کی سنگِ بنیاد رکھیں گے۔

گذشتہ روز شیخ حسینہ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ اجلاس کے بعد ایک بیان میں کہا تھا کہ مظاہرین طلبہ نہیں، بلکہ دہشتگرد ہیں جو ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

شیخ حسینہ واجد کو استعفیٰ کیوں دینا پڑا؟

اتوار کو مقامی وقت کے مطابق شام چھ بجے سے کرفیو کا اعلان کیا گیا۔ مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق کرفیو غیر معینہ مدت تک نافذ رہے گا۔ اس سے قبل ہفتہ کے روز طلبہ تحریک کے رہنماؤں میں شامل ناہید اسلام نے ڈھاکہ میں ہزاروں کے اجتماع میں خطاب کے دوران کہا کہ شیخ حسینہ کو صرف استعفیٰ ہی نہیں دینا چاہیے بلکہ ان پر قتل و غارت، لوٹ مار اور بدعنوانی کا مقدمہ ہونا چاہیے۔

بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں موبائل فونز پر انٹرنیٹ کی سہولت معطل کر دی گئی تھی جو دوبارہ بحال کر دی گئی ہے۔ بنگلہ دیش میں مظاہرین نے اتوار سے شروع ہونے والی ملک گیر سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کرتے ہوئے شہریوں پر زور دیا کہ وہ ٹیکس یا کوئی بل ادا نہ کریں۔ طلبہ کی جانب سے تمام فیکٹریوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کو بند کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔

سابق آرمی چیف اقبال کریم نے اتوار کو ڈھاکہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ فوری طور پر مسلح افواج کو واپس آرمی کیمپ میں لانا اور انھیں کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار کرنا ضروری ہے۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس بحران کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے لیے پہل کریں۔ محب وطن مسلح افواج کو طلبہ کے ہجوم کا سامنا نہیں کرنا چاہیے۔

بنگلہ دیش کے آرمی چیف نے قوم سے خطاب میں کیا کہا؟

بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ کے استعفے کے بعد ملک کی فوج کے سربراہ وقار الزماں نے کہا ہے کہ ملک میں ایک عبوری حکومت قائم کی جائے گی۔ پیر کو اپنے خطاب کے دوران بنگلہ دیشی فوج کے سربراہ وقار الزماں کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم نے استعفیٰ دے یا ہے۔ ہم ایک عبوری حکومت بنائیں گے، صبر کا مظاہرہ کریں۔انہوں نے احتجاجی مظاہرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ساتھ تعاون کریں، ہم ساتھ مل کر ایک بہتر مستقبل کی سنگِ بنیاد رکھیں گے۔

شیخ حسینہ عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے پڑوسی ملک بھارت پہنچ چکی ہیں۔ بنگلہ دیش میں ہفتوں سے جاری پُرتشدد مظاہروں میں اب تک 300 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ فوج کے سربراہ وقار الزمان نے احتجاجی مظاہرین کو یقینی دہانی کروائی ہے کہ ہر قتل کی تحقیقات کروائیں گے۔

فوج کے سربراہ وقار الزمان نے کہا کہ میں تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے بات چیت کر چکا ہوں، میں نے سول سوسائٹی کے اراکین سے بات کی ہے۔ فوج ملک میں امن و امان برقرار رکھے گی۔

حکومت مخالف مظاہرے شروع کیسے ہوئے؟

بنگلہ دیش میں سرکاری نوکری کو اچھی تنخواہ کی وجہ سے کافی اہمیت دی جاتی ہے تاہم تقریبا نصف نوکریاں، جن کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے، مخصوص گروہوں کے لیے مختص ہیں۔

5 جون 2024 کو بنگلہ ہائیکورٹ نے سنہ 2018 میں ختم کیا گیا کوٹہ سسٹم بحال کر دیا۔ عدالتی فیصلہ کے بعد طلبہ کے احتجاج پُرتشدد ہنگاموں میں تبدیل ہو گیا۔

سرکاری نوکریوں کا ایک تہائی حصہ ان افراد کے اہلخانہ کے لیے مخصوص ہے جنھیں بنگلہ دیش میں آزادی کی جنگ کا ہیرو مانا جاتا ہے تاہم طلبہ کا کہنا ہے کہ یہ نظام متعصبانہ ہے اور سرکاری نوکری صرف میرٹ کی بنیاد پر ہی ملنی چاہیے۔

احتجاج میں شریک طلبہ رہنماؤں کا کہنا تھا کہ انھیں وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے اس بیان نے طیش دلایا جس میں ان طلبا کے مطابق وزیر اعظم نے کوٹہ نظام کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو 1971 کی جنگ میں پاکستان کی مدد کرنے والے ’رضاکاروں‘ سے تشبیہ دی۔
بنگلہ دیش میں یہ اصطلاح ان لوگوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جنھوں نے مبینہ طور پر 1971 کی جنگ میں پاکستان کی فوج کا ساتھ دیا تھا۔
ایسے میں ملک کے دارالحکومت ڈھاکہ سمیت کئی شہروں میں احتجاجی مظاہروں کے دوران اس نظام کے مخالفین اور برسراقتدار عوامی لیگ کے طلبہ کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جن کے دوران لاٹھیوں اور اینٹوں کا استعمال ہوا، پولیس کی جانب سے آنسو گیس برسائی گئی اور ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں جس کی وجہ سے سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔
مظاہرین نے حکومت کو نو نکاتی مطالبات کی فہرست دی اور پھر عدلیہ کی مداخلت سے بظاہر انتظامیہ نے یہ مطالبات تسلیم بھی کر لیے مگر پھر بھی احتجاج اور مظاہروں کا یہ سلسلہ رک نہ سکا۔

طلبہ کا احتجاج اور نو نکاتی مطالبات کیا تھے؟

احتجاج کرنے والے طلبہ نے حکومت کو نو مطالبات کی فہرست دی، جس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ وزیراعظم فسادات کی ذمہ داری قبول کریں اور ہلاک طلبہ کے خاندانوں سے معافی مانگیں۔ وزیرداخلہ اور وزیر ٹرانسپورٹ وزارتوں سے مستعفی ہوں۔ جن مقامات پر لوگوں کو ہلاک کیا گیا وہاں پر تعینات پولیس اہلکاروں سے استعفیٰ لیا جائے۔ ڈھاکہ، جہانگیر نگر اور راج شاہی یونیورسٹیز کے وائس چانسلر استعفے دیں۔ طلبہ پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے اور زخمی اور مرنے والوں کو معاوضہ ادا کیا جائے۔

عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم ’بنگلہ چھاترو لیگ‘ پر پابندی لگائی جائے۔ تعلیمی ادارے، طلبہ ہوسٹل اور ہال کھولے جائیں۔ طلبہ کو انتقامی کارروائیاں نہ کرنے کی ضمانت دی جائے، تعلیمی سرگرمیاں معمول کے مطابق بحال کی جائیں۔

Share your love

Stay informed and not overwhelmed, subscribe now!