’نچلی عدالتوں کو بائی پاس کر کے کیوں آئے؟‘ عمران خان سے ہائی کورٹ میں سوال
Share your love
عمران خان کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستوں پر پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کے سے استفسار کیا کہ ’آپ نچلی عدالتوں کو بائی پاس کر کے براہ راست ہائی کورٹ کیوں آئے ہیں؟‘
بیرسٹر سلمان صفدر نے سکیورٹی رسک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’یہاں ماحول بہت بہتر ہے۔‘ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’اگر ہزاروں لوگ آ جائیں گے تو پھر لا اینڈ آرڈر کی صورت حال پیدا ہو گی۔‘
رمضان کے عدالتی نوٹیفیکیشن کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے اوقات ڈیڑھ بجے ختم ہوتے ہیں۔
عمران خان عدالتی وقت ختم ہونے کے بعد کمرہ عدالت میں 13:40 پر داخل ہوئے۔ تحریک انصاف وکلا ونگ کے وکیل بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے اور وہ عمران خان کے ساتھ سیلفی بنانا چاہتے تھے۔
کمرہ عدالت میں عمران خان کے ساتھ ان کا سکیورٹی سٹاف بھی بلٹ پروف جیکٹس پہن کر اندر آیا، جس پر اسلام آباد پولیس نے عمران خان کے سکیورٹی سٹاف کو بلٹ پروف جیکٹس اتار کر کمرہ عدالت سے باہر چھوڑ کر آنے کا کہا۔
پولیس نے درخواست کی کہ عدالت کے ڈیکورم کا خیال رکھیں۔ اس کے بعد سکیورٹی سٹاف نے جیکٹس کمرہ عدالت کے باہر رکھ دیں۔
ہائی کورٹ میں سکیورٹی انتظامات
عمران خان کی کمرہ عدالت میں آمد سے قبل بم ڈسپوزل سکواڈ نے عدالت کو خالی کروایا اور سکیورٹی کلئیر کی۔ جس کے بعد فہرست کے مطابق افراد کو اندر جانے کی اجازت دی۔
ہائی کورٹ کے باہر مختلف مقامات پر کنٹینرز رکھے گئے جبکہ اسلام آباد پولیس، ایف سی رینجرز سمیت ڈھائی ہزار کے قریب اہلکار تعینات کیے گئے۔
ہنگامی حالات اور مظاہرین سے نمٹنے کے لیے آٹھ قیدی وینز بھی موجود تھیں۔
ہائی کورٹ کے احاطے میں فہرست میں نام دیکھ کر اندر جانے کی اجازت دی جا رہی تھی۔
ہائی کورٹ میں گذشتہ پیشیوں میں شامیانے لگائے جاتے تھے لیکن اس مرتبہ غیر معمولی انتظامات نہیں تھے بلکہ معمول کی سکیورٹی تھی۔
کمرہ عدالت میں عمران خان کی غیر رسمی گفتگو
کمرہ عدالت میں عمران خان نے میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطلب ہوتا ہے رول آف لا، اپنے ایمپائرز کھڑے کرنے کا مطلب لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ہوتا، ملک میں رول آف لا ختم ہو چکا ہے۔‘
صحافی نے سوال کیا کہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے ’یا یہ رہیں گے یا ہم رہیں گے؟‘ اس پر عمران خان نے جواب دیا کہ خواہش تو یہی ہے دونوں رہیں لیکن اگر وہ کہہ رہے ہیں تو میں یہی کہوں گا ’وہ نہیں رہیں گے، اگر آج نامعلوم پیچھے نہ ہوں تو یہ حکومت ختم ہو جائے۔ سیاستدانوں کے لیے مذاکرات کے دروازے ہمیشہ کھلے ہوتے ہیں۔‘
عمران خان کی پیشی سے دو گھنٹے قبل ہی ان کے وکلا کی ٹیم بشمول بیرسٹر سلمان صفدر اور فواد چوہدری پہنچ گئے۔
کمرہ عدالت میں شاہ محمود قریشی، اسد عمر، علی محمد خان بھی موجود تھے۔ جبکہ شیخ رشید صبح عدالت کے باہر آئے اور میڈیا سے گفتگو کر کے واپس چلے گئے۔
سماعت کی کارروائی
سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر کو کہا کہ ’آپ پہلے عدالت کو مطمئن کریں کہ آپ نچلی عدالتوں کو بائی پاس کر کے براہ راست ہائی کورٹ کیوں آئے ہیں؟ آپ نے آخرکار جانا ادھر ہی ہے پھر پہلے ٹرائل کورٹ کیوں نہیں گئے؟‘
بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’درخواست گزار کی سکیورٹی رسک پر ہے۔ وہ پہلے ہی قتل کے حملے سے بال بال بچے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت حاصل کی، جوڈیشل کمپلیکس پہنچے تو گیٹ سے آگے نہیں جانے دیا گیا، عمران خان پر اسی روز مزید ایف آئی آرز درج کی گئیں۔‘
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ ’یہاں ماحول بہت بہتر ہے۔‘
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’اگر ہزاروں لوگ آ جائیں گے تو پھر لا اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا ہو گی، آپ نے ہی اس صورتحال کو بہتر بنانا ہے۔ ہمیں یہ بات مدنظر ہے کہ پٹیشنر ایک بڑی سیاسی جماعت کے لیڈر ہیں اور ان کے فالورز بھی ہیں۔‘
اسی دوران عمران خان خود روسٹرم پر چلے گئے تاکہ ہائی کورٹ آنے کے جواز بتا سکیں لیکن چیف جسٹس نے انہیں بات کرنے سے روک دیا اور واپس نشست پر بیٹھنے کا کہہ دیا۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’عمران خان کو سکیورٹی خدشات ہیں جو جینوئن ہوں گے، عمران خان پر ایک مرتبہ حملہ بھی ہو چکا ہے۔‘
دوران سماعت عمران خان اضطراب کے عالم میں تسبیح ہاتھ میں گھماتے رہے۔
عدالت نے ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون کو روسٹرم پر بلا لیا۔ جسٹس میاں گل حسن نے بھی ریمارکس دیے کہ عدالت نے متعدد بار چیف کمشنر کو سکیورٹی فراہم کرنے کا کہا۔
حکومت کی جانب سے ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’ٹرائل کورٹ کو ایف ایٹ کچہری سے جوڈیشل کمپلیکس شفٹ کیا گیا، عمران خان کی ذمہ داری ہے کہ وہ پر امن ماحول کو یقینی بنائیں، یہ وہاں گاڑی سے نہیں اترے اور ان کے لوگوں نے وہاں گاڑیاں جلا دیں۔‘
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’جب انتظامیہ ایسے غیر ذمہ دارانہ بیان دے گی تو یہ غلط بات ہے، اختلاف رائے الگ بات ہے لیکن جان کی حفاظت حکومت اور انتظامیہ نے ہی کرنی ہے۔‘
سلمان صفدر نے کہا کہ ’درخواست گزار کے لیے سب سے آسان رسائی اسلام آباد ہائی کورٹ ہے۔ ہمیں جوڈیشل کمپلیکس جانے میں اعتراض نہیں لیکن ہم ایف ایٹ کچہری نہیں جانا چاہتے وہاں سکیورٹی کے حالات بہت مخدوش ہیں۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’عمران خان بطور سابق وزیراعظم کس سکیورٹی کے حقدار ہیں؟ وہ سکیورٹی تو ساتھ ہی ہوتی ہو گی۔‘
فواد چوہدری بھی روسٹرم پر آ گئے اور انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’جب عمران خان پر حملہ ہوا تو اس سے دو روز قبل سکیورٹی واپس لے لی گئی تھی۔‘
چیف جسٹس نے پوچھا کہ ’پٹیشنر اب اسلام آباد میں ہیں تو یہاں سکیورٹی کس نے دینی ہے؟‘
اس پر فواد چوہدری نے جواب دیا کہ ’یہاں سکیورٹی وزارت داخلہ نے دینی ہے اور وزیر داخلہ کا بیان تو آپ نے دیکھ ہی لیا ہے۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’حکومت آتی جاتی رہتی ہے لیکن ریاست وہاں ہی رہے گی۔ سیاسی جماعتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ ریاست کے ادارے اور ریاست کسی ایک شخص یا جماعت کے لیے نہیں بلکہ سب کے لیے ہے۔‘
سماعت کے بعد سات مقدمات میں عدالت نے عمران خان کی چھ اپریل تک عبوری ضمانتیں منظور کر لیں نیز ان کی سکیورٹی کے حوالے سے وفاق اور وزارت داخلہ کو نوٹس بھی جاری کر دیے۔
درخواست کا متن
عمران خان نے مختلف مقدمات میں ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دی جس میں وفاقی حکومت و دیگر کو فریق بنایا۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ سیاسی انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے مقدمات درج کیے گئے، درخواست میں استدعا کی کہ عدالت فریقین کو درخواست گزار کی گرفتاری سے روکے، یہ بھی کہا گیا کہ عدالت ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرے۔
بعد ازاں سات عبوری ضمانت کی درخواستوں پر رجسٹرار نے دو دو اعتراضات عائد کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے بائیو میٹرک نہیں کرایا، ٹرائل کورٹ سے پہلے ہائی کورٹ کیسے دائر کر سکتی ہے۔