بنگلہ دیش احتجاج، طلبہ رہنماؤں کا ملک میں فوجی حکومت قبول کرنے سے انکار
Share your love
ڈھاکہ: بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے خلاف احتجاج کرنے والی طلبہ تحریک کے رہنما نے ملک میں فوجی حکومت قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے، ساتھ ہی ڈاکٹر یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت کا خاکہ بھی جاری کردیا گیا۔
طلبہ تحریک کے رہنما ناہید اسلام نے کہا ہے کہ ہمیں بنگلہ دیش میں فوج کی حمایت یافتہ حکومت قبول نہیں ہے، ملک میں عبوری حکومت بنانی ہے تو اس کا خاکہ ہم دیں گے۔
طلبہ تحریک کے رہنما ناہید اسلام، آصف محمود اور ابوبکرمازوم دار نے ویڈیو پیغام کے ذریعے عبوری حکومت کا خاکہ جاری کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس کے زیر سربراہی عبوری حکومت قائم کی جائے۔
ناہید اسلام نے کہا کہ طلبہ پہلے ہی ڈاکٹر یونس سے بات کرچکے ہیں اور وہ عبوری حکومت میں کردار پر آمادگی ظاہر کرچکے ہیں، دیگرنام آج صبح دیے جائیں گے.
طلبہ تحریک کے رہنما ناہیداسلام نے کہا کہ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت اگلے 24 گھنٹوں میں قائم کردی جائے گی ، ہمیں متحد رہنا ہے اور مذہبی اشتعال انگیزی اور تقسیم سے بچنا ہے ، مظاہرین کو یہ سلسلہ روک دینا چاہیے۔
دوسری جانب ڈاکٹر محمد یونس نے اپنے بیان میں کہا کہ شیخ حسینہ واجد نے شیخ مجیب الرحمان کی میراث تباہ کردی تھی، بنگلہ دیش اب آزاد ہوگیا ہے۔
ادھر امریکہ نے بنگلہ دیش کی تازہ ترین صورتحال پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے تمام فریقوں پر زور دیا ہے کہ وہ پرتشدد اقدامات سے گریز کریں۔
ملک میں اتوار تک پرتشدد مظاہروں میں 300 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد حسینہ واجد نے وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا تھا اور آرمی چیف قمرالزمان نے آج ملک میں عبوری حکومت کے قیام کا اعلان کیا تھا۔
گزشتہ روز بنگلہ دیش کے صدر محمد شہاب الدین نے فوجی قیادت سے ملاقات میں مختلف سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی پر مشتمل عبوری حکومت قائم کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔اس سلسلے میں فوج سے کہا گیا تھا کہ وہ جاری لوٹ مار بند کرائے اور قانون کی بلادستی بحال کرائی جائے۔
آرمی چیف وقار الزمان نے بھی مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے افراد سے ملاقاتیں بھی کی تھیں اور عبوری حکومت جلد قائم ہونے کا عندیہ دیا تھا، وہ طلبہ اور اساتذہ سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
ادھر بھارتی میڈیا کے مطابق بنگلہ دیش کی مستعفی وزیراعظم نے برطانیہ سے سیاسی پناہ کی درخواست کردی ہے جبکہ ان کی بہن شیخ ریحانہ کے پاس پہلے ہی سے برطانیہ کی شہریت ہے، دونوں بہنیں اس وقت بھارت میں ہیں۔
بنگلہ دیش میں 1971 کی جنگ لڑنے والوں کے بچوں کو سرکاری نوکریوں میں 30 فیصد کوٹہ دیے جانے کے خلاف گزشتہ ماہ کئی روز تک مظاہرے ہوئے تھے جن میں 200 افراد ہلاک ہوئے جس کے بعد سپریم کورٹ نے کوٹہ سسٹم کو ختم کردیا تھا۔