طالبان دور حکومت میں 14 لاکھ افغان لڑکیاں تعلیم اور ہزاروں خواتین ملازمتوں سے محروم،رپورٹ
Share your love
کابل: یونیسکو کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ طالبان کے افغانستان میں 15 اگست 2021 سے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے کم از کم 1.4 ملین لڑکیوں کو ثانوی تعلیم تک رسائی سے محروم کر دیا گیا ہے جس سے پوری ایک نسل کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ کی ثقافتی ایجنسی یونیسکو نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ افغانستان میں گو طالبات کو پرائمری تعلیم تک اجازت ہے لیکن اب اس میں بھی تیزی سے کمی آئی ہے اور بہت محدود تعداد میں بچے بچیاں پرائمری اسکول جاتے ہیں۔
طالبان اقتدار کے 3 سال مکمل ہونے پر جاری کی جانے والی یونیسکو کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسکول جانے کی عمر کی لڑکیوں کی 80 فیصد آبادی تعلیم سے محروم ہے جب کہ 14 لاکھ افغان لڑکیوں کو ثانوی تعلیم سے روکا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے لڑکیوں اور خواتین کو سیکنڈری اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم جاری رکھنے سے روک رکھا ہے۔
یونیسکو کا کہنا ہے کہ 2022 میں پرائمری اسکول میں 5.7 ملین لڑکیاں اور لڑکے تھے جب کہ 2019 میں یہ تعداد 6.8 ملین تھی۔ اسی طرح 2021 کے مقابلے میں یونیورسٹی کے طلبا کی تعداد میں 53 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی یونیسکو کے مطابق اس کمی کی وجہ سرکاری سطح پر خواتین اساتذہ کے لڑکوں کو پڑھانے پر پابندی اور بچوں کو اسکول بھیجنے والے والدین کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے وعدے کے برخلاف اب تک خواتین کو ملازمتوں سے محروم کر رکھا ہے۔
خیال رہے کہ طالبان کی حکومت کو تاحال کسی حکومت نے تسلیم نہیں کیا ہے اور اس کے مرکزی بینک کے اثاثے بھی تاحال منجمد ہیں۔ مغربی ممالک نے ان اثاثوں کی بحالی کو لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کی ملازمتوں سے مشروط کر رکھا ہے۔