ہر ادارے کو اپنی خود احتسابی خود کرنا ہوگی نہ کی توکوئی اور آکر کرے گا،چیف جسٹس
Share your love
اسلام آباد:پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم اپنا کام کرتے تو پارلیمنٹ کو ایسی قانون سازی کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی،ہر ادارے کو اپنی خود احتسابی خود کرنا ہوگی اور خود احتسابی نہ کی گئی تو پھر کوئی اور آکر خود احتسابی کرے گا۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے ماضی میں سپریم کورٹ نے آرٹیکل 184کی شق تین کے بے جا استعمال سے پورے ملک کی بنیادیں ہلا دی گئیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پندرہ رکنی فل کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر ہی جب ججز نے سوالات کرنے کا آغاز کیا تو چیف جسٹس پاکستان نے کہا میں تمام ججز سے درخواست کروں گا کہ وکلاء کو اپنے دلائل دینے دیں،پھر ججز کے سوالات پر وکلاء جواب دیں۔
اسی دوران جب جسٹس منیب اختر نے پھر سوال کرنا چاہا تو چیف جسٹس نے کہا ہم فل کورٹ اس کیس کو سن رہے ہیں،اگر ہم نے ایک کیس کو سننے میں ایک سال لگا دیا تو کیا یہ ہماری کارکردگی ہوگی۔جسٹس منیب اختر نے کہا بطور جج سوال کرنا میرا حق ہے،میرے سوال میں خلل نہ ڈالا جائے۔چیف جسٹس پاکستان نے مسکراتے ہوئے کہا خلل تو آپ ڈال رہے ہیں۔
دوران سماعت ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی نے جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک کے فیصلوں کے حوالے دیتے ہوئے کہا دونوں معزز جج صاحبان ہائیکورٹ جج کے طور پر انٹر کورٹ اپیل تخلیق کرنے کی پارلیمانی قانون سازی کو درست قرار دے چکے ہیں،پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کر سکتی ہے جس میں عدلیہ کے اختیارات کو بڑھایا جائے۔
دوران سماعت جب چیف جسٹس پاکستان نے ایک سوال پوچھا تو اسی دوران جسٹس منیب اختر نے بھی ایک سوال پوچھ لیا۔ایم کیو ایم کے وکیل نے مسکراتے ہوئے جسٹس منیب اختر کی طرف دیکھا اور کہا سر آپکی اجازت سے۔جب جسٹس منیب اختر نے کہا جی پلیز تو چیف جسٹس پاکستان نے کہا آپ نے مجھ سے اجازت نہیں لی،یہ تو آپکا دہرا معیار ہے،میں نے سب سے کم سوالا ت کیے،کم از کم ماسٹر آف دی روسٹر کے سوال کا جواب تو دے دیں۔جسٹس منیب اختر نے کہا پہلے صاحب کے سوال کا جوا ب دے دیں۔
دوران سماعت جب جسٹس منیب اختر نے امریکی سپریم کورٹ کا حوالہ دیا تو چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے امریکی سپریم کورٹ میں سالانہ ایک سو بیس مقدمات کو سن کر فیصلے کیے جاتے ہیں،ہماری طرح ہر کیس سپریم کورٹ نہیں آتا، امریکی سپریم کورٹ میں ہماری طرح چھپن ہزار سے زائد مقدمات زیر التو ا نہیں ہیں،سیب کا موازنہ مالٹے کے بجائے سیب سے کریں۔
ایک موقع پر جسٹس مظاہر نقوی نے ایڈووکیٹ فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کیا ایسی ٹیم کو کبھی جیتتے ہوئے دیکھا جس میں تین کپتان ہوں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا میں بھی سپورٹس مین رہا ہوں،ٹیم میں کپتان اور نائب کپتان دونوں ہوتے ہیں۔جسٹس مظاہر نقوی نے کہا ٹیم میں کپتان ایک ہی اچھا لگتا ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا فل کورٹ کیس سن رہی رہے تو اپیل کون سنے گا۔وکیل ایم کیو ایم نے جواب دیا چاہے پچاس ججز کی تعداد ہی کیوں نہ ہوجائے،فل کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل نہیں سنی جاسکتی۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کوئی قانون محض اس وجہ سے کالعدم قرار نہیں دیا جاسکتا کہ فل کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل کا حق نہیں ہے۔سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے دوبارہ ہوگی۔