Enter your email address below and subscribe to our newsletter

بانی پی ٹی آئی یہ ثابت نہیں کر سکے کہ نیب ترامیم غیر آئینی ہیں، سپریم کورٹ نے نیب ترامیم بحال کر دی، حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل منظور

Share your love

اسلام آباد : نیب ترامیم کالعدم قراردینے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلیں کا محفوظ فیصلہ سنا دیا گیا، چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ کورٹ روم نمبرون میں پہنچا، چیف جسٹس قاضی فائزعیسی نے نے محفوظ فیصلہ سنایا، سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سمیت دیگرانٹراکورٹ اپیلیں منظورکرلی، سپریم کورٹ نے 15 ستمبر2023 کا سابق چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا،
فیصلے میں کہا گیاکہ پارلیمان اور عدلیہ کا آئین میں اپنا اپنا کردار واضح ہے ،سپریم کورٹ پارلیمنٹ کیلئے گیٹ کیپرکا کردارادا نہیں کرسکتی چیف جسٹس اورججز پارلیمنٹ کیلئے گیٹ کیپرنہیں ہوسکتے، سپریم کورٹ کوجب بھی ممکن ہوقانون سازی کوبرقراررکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، بانی پی ٹی آئی نیب ترامیم کوآئین سے متصادم ثابت کرنے میں ناکام رہے
جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے اضافی نوٹ تحریرکیا ہے، جسٹس اطہرمن اللہ نے اکثریتی فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے وفاقی حکومت کی اپیل ناقابل سماعت اورمتاثرہ فریقین کی اپیلیں منظورکرلی، اضافی نوٹ میں لکھا کہ حکومت کی اپیل ناقابل سماعت ہے جسٹس حسن اظہر رضوی نے فیصلے سے اتفاق لیکن وجوہات سے اختلاف کیا.
سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی کی اپیل پر نیب ترامیم کو دو ایک کی اکثریت سے کالعدم کیا تھا۔ پی ڈی ایم دور حکومت میں نیب ترامیم منظور کی گئی تھیں، نیب قوانین کے سیکشن 2، 4، 5، 6، 14, 15, 21, 23، 25 اور 26 میں ترامیم کی گئی تھیں۔ نیب ترامیم کیخلاف بانی پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے 5 ستمبر 2023 کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے 15ستمبر 2023 کو بانی پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرتے ہوئے نیب ترامیم کالعدم قرار دیں تھی۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے نیب ترامیم کی 10 میں سے 9 ترامیم کالعدم قرار دی تھیں، وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے سپریم کورٹ میں انٹراکورٹ اپیلیں دائر کیں تھی ۔ بانی پی ٹی آئی نے نیب ترامیم کیس میں دائر اپیلوں پر ذاتی حیثیت میں دلائل دینے کی درخواست دائر کی تھی۔
سپریم کورٹ نے 10 مئی 2024 کو انٹراکورٹ اپیلیں سماعت کیلئے مقرر کرتے ہوئے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا، لارجر بینچ نے بانی پی ٹی آئی کی بذریعہ ویڈیو لنک پیشی کی اجازت دی تھی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے 6 جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ میں شامل ہیں۔
نیب ترامیم کیا ہیں؟
نیب ترامیم کے تحت بہت سے معاملات کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا تھا، نیب ترامیم کو قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے آغاز سے نافذ قرار دیا گیا تھا، نیب ترامیم کے تحت نیب 50 کروڑ سے کم مالیت کے معاملات کی تحقیقات نہیں کر سکتا، ترامیم کے تحت نیب دھوکا دہی مقدمے کی تحقیقات تب ہی کر سکتا ہے جب متاثرین 100 سے زیادہ ہوں۔
نیب ترامیم کے تحت ملزم کا زیادہ سے زیادہ 14 دن کا ریمانڈ لے سکتا ہے جسے بعد میں 30دن تک بڑھا گیا، ترامیم کے تحت نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکتا تھا، ترامیم کے تحت ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو نیب دائرہ کار سے نکال دیا گیا تھا، افراد یا لین دین سے متعلق زیر التواء تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز متعلقہ اداروں اور عدالتوں کو منتقل ہوئیں۔

Share your love

Stay informed and not overwhelmed, subscribe now!