پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی اور عام شہری
Share your love
تحریر: محمد فہیم
اظہار رائے کی آزادی کی جب بات ہوتی ہے تو اس میں اظہار کے تمام ذرائع اور اقسام شامل ہیں۔ ان میں مصوری، موسیقی، مجسمہ سازی اور تحریر سے لے کر عام تقریر تک بے شمار ذرائع شامل ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں عوامی سطح پر عام طور پر تحریر و تقریر ہی اظہار کے بنیادی ذرائع کے طور پر زیر بحث آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم لوگ عام طور پر تحریر و تقریر کی آزادی کی بات کرتے ہیں۔
اظہار رائے کی آزادی کو دنیا بھرمیں ایک انسانی حق کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے آرٹیکل 19کے تحت اس کو با ضابطہ طور تسلیم کیا گیا ہے۔ اس آرٹیکل کے مطابق ہر شخص کو کسی قسم کی مداخلت کے بغیر رائے رکھنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ اور ہر شخص کو اپنی رائے کے اظہار کا حق ہونا چاہیے۔
تحریر و تقریر کی آزادی یہ ہے کہ کسی شخص کو اپنی رائے اور خیالات کو بلا خوف و خطر دوسروں تک پہچانے کی آزادی ہو۔ اس شخص کو اپنی رائے کا اظہار کرتے وقت کسی قسم کا خوف یا ڈر نہ ہو۔ کسی کی طرف سے اپنے اوپر حملہ ہونے کا خدشہ نہ ہو۔ یا یہ خوف دامن گیر نا ہو کہ کوئی بات کہنے سے اسے کوئی جانی یا مالی نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔ یا اسے اپنے خلاف کسی قسم کی قانونی کارروائی یا پابندی کا ڈر نہ ہو۔
لیکن یہ بڑی حیرت و افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں اظہار رائے کی آزادی پر ابھی صرف گفتگو کا آغاز ہو رہا ہےاور ہمارے معاشرے میں اس کی اب بھی مکمل آزادی حاصل نہیں ہے حالانکہ آزادی رائے ایک بہت ہی پرانا اصول ہے اور جمہوریت کے ابتدائی تصورات میں سے ایک ہے۔
جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی باہم منسلک اور مشروط ہیں۔درست جمہوریت ایک ایسا نظام ہے، جس میں عوام خود اپنے آپ پر حکومت کرتے ہیں۔ خود پر حکمرانی کے لیے عوام کا پورے طریقے سے آگاہ اور با شعور ہونا ضروری ہے۔ اس کے لیے ہر طرح کی معلومات تک رسائی ضروری ہے۔
عوام کو یہ رسائی تب ہی ممکن ہوگی، جب اس پر کسی قسم کی قدغن نہ ہو۔ اس کے بغیر کچھ لوگ یا چند گروہ رائے عامہ کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ آزادی رائے اور جمہوریت کے نام پر ایک فراڈ ہے۔
تاہم پاکستان کے حوالے سے حق آزادی رائے کا سوال آج کل پھر زیر بحث ہے کہ پاکستان میں عام شہری کو اظہار رائے کا کتنا حق حاصل ہے؟ ۔اب سوال یہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے کچھ صحافیوں پر ہونے والے حملوں، ان کے اغوا سے اٹھانے والے رد عمل کے طور پر صحافیوں کے مظاہروں سے اس بحث میں دلچسپی بڑھی ہے۔
اس تناظر میں عام آدمی کے لیے بھی یہ سوال دلچسپی کا باعث بنتا جا رہا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی آخر ہے کیا چیز، اور اس ضمن میں پاکستان کہاں کھڑا ہے۔ کسی صحافی یا عام شہری کو کیا کہنے کی آزادی ہونی چاہیے؟ اور اسے کیا کہنے سے روکا جا سکتا ہے؟۔
چنانچہ اظہار رائے اور تنقید کی آزادی کے بغیر آزادی اظہار کی آزادی کا دعویٰ محض ایک فریب ہے۔ پاکستان کے آئین میں بھی اظہار رائے کے باب میں جو کچھ درج ہے وہ آزادی اظہار رائے کی مکمل ضمانت فراہم کرتا ہے۔
لیکن بد قسمتی سے عملی طور پر کسی کو یہ ضمانت میسر نہیں۔ اس کے بجائے صحافیوں سمیت ہر عام شہری کو ایک سخت قسم کے مخاصمانہ ماحول کا سامنا ہے۔ہمارے یہاں صحافی قتل اور اغوا ہوتے رہے ہیں۔ اپنے خیالات اور آرا کے اظہار کی بنیاد پر ان کو ملازمتوں سے قانونی تقاضے پورے کیے بغیر برطرف کیا جاتا رہا ہے۔
اوروقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ کم ہونے کے بجائے بڑھتا جا رہا ہے، حالیہ دنوں میں رونما ہونے والے واقعات ان نا مساعد حالات کی عکاسی کرتے ہیں، جن میں پاکستان کے صحافی اپنے فرائض منصبی ادا کرنے پر مجبور ہیں۔
ویسے بھی شہریوں کے آزادی اظہارکا گلا گھونٹنے کا نتیجہ دیگرتمام حقوق کی نفی کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس سے صرف اور صرف یہی ظاہر ہوتا ہے کہ عدم برداشت پر مبنی آزادی اظہار کا حل یہی ہو سکتا ہے کہ اظہار کی اور زیادہ آزادی دے دی جائے۔ ہمیں آزادانہ اظہار کے تاریک پہلو کو ایسی اہمیت نہیں دینی چاہیے جس سے اس کے بہت سے مثبت پہلو چھپ جائیں۔