سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت مکمل، فیصلہ محفوظ
Share your love
اسلام آباد:سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر سماعت مکمل ہو گئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے کیس کی سماعت کی، سماعت مکمل ہونے پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اتفاق رائے ہوا تو فیصلہ سنا دیا جائے گا، دوسری صورت میں فیصلہ محفوظ سمجھا جائے۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ اب تک 4، اور لارجر بینچ 5 سماعتیں کرچکا ہے، لارجر بینچ نے 13 اپریل کو پہلی سماعت میں ہی قانون پر حکم امتناع جاری کر دیا تھا۔
ٓآج کی سماعت کا آغاز اٹارنی جنرل منصور عثمان کے دلائل سے ہوا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں تحریری جواب کی بنیاد پر دلائل دوں گا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ سب باتیں دہرائیں گے نہیں ہائی لائٹ کریں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو کہا جا چکا اس کو نہیں دہراوٴں گا، 3 سوالات اٹھائے گئے تھے جن کا جواب دوں گا۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے ماسٹر آف روسٹر کے نکتہ پر دلائل دوں گا، 195 کے رولز پر بھی عدالت میں دلائل دوں گا، اختیارات کی تقسیم اور پارلیمان کے ماسٹر آف روسٹر کے اختیار لینے پر دلائل دوں گا، فل کورٹ کی تشکیل اور اپیل کے حق سے محروم کرنے کے حوالے سے بھی دلائل دوں گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب سے آئین بنا ہے آرٹیکل 191 میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی، آرٹیکل 191 میں ترمیم نہ ہونا عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانا ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آرٹیکل 191 میں لاء کا لفظ باقی آئینی شقوں میں اس لفظ کے استعمال سے مختلف ہے؟۔
اٹارمی جنرل نے کہا کہ سنگین غداری کے قانون اور رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ میں قانون سازی کا اختیار آئینی شقوں سے لیا گیا، ان قوانین میں پارلیمنٹ نے فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ پر انحصار نہیں کیا تھا، رائٹ ٹو پرائیویسی کو قانون کے ذریعے ریگولیٹ کیا گیا ہے، آرٹیکل 191 سے پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ملتا ہے، آئین کا کوئی آرٹیکل پارلیمان سے قانون سازی کا اختیار واپس نہیں لیتا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمنٹ نے اگر 1973ء کے بعد سے آرٹیکل 191 کے تحت کچھ نہیں کیا تو اس کا ایک اور مطلب بھی تھا، اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پارلیمنٹ نے تسلیم کیا آرٹیکل 191 مزید قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 191 قانون سازی کا اختیار دیتا ہے پابندی نہیں لگاتا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین میں لفظ لاء دو سو سے زیادہ بار آیا ہے، آپ کہہ رہے ہیں جہاں بھی یہ لفظ لکھا وہ ایک تناظر میں دیکھا جائے گا، یہ ون سائز فٹ آل والا معاملہ نہیں ہے، جہاں بھی یہ لفظ لکھا ہے اس کی نوعیت الگ ہے۔
جسٹس میاں محمد علی مظہر نے کہا کہ آرٹیکل 191 میں پھر سبجیکٹ ٹو کانسٹی ٹیوشن اینڈ لاء کیوں ہے؟، یہ پھر صرف سبجیکٹ ٹو کانسٹی ٹیوشن کیوں نہیں رکھا گیا؟، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آرٹیکل 191 میں صرف لا کا لفظ نہیں، یہ سبجیکٹ ٹو لاء لکھا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیوں نہیں کہتے آئین سازوں نے پارلیمنٹ یا لاء کا لفظ دانستہ طور پر استعمال کیا ہے، پارلیمان نے آئین کو جاندار کتاب کے طور پر بنایا ہے کہ جو وقت پڑنے پر استعمال ہو سکے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین ساز یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ سپریم کورٹ اپنے رولز تب تک بنائے جب تک کوئی قانون سازی نہیں ہو جاتی، آئین سازوں کی نیت سے کہیں واضح نہیں ہے کہ قانون سازی سے سپریم کورٹ رولز بدل سکتے ہیں۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں کہاں لکھا ہے عدالتی فیصلے بھی قانون ہوں گے؟، عدالتی فیصلوں کی پابندی اور ان پر عملدرآمد ضروری ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ آپ نے اپنی پوری بحث جو شروع کی ہے وہ کسی اور نکتے پر کی ہے، آپ اگر اپنے دلائل مرکوز رکھتے تو اتنی بحث نہ چھڑتی، یہاں معاملہ بھی تو تھوڑا ٹھنڈا رکھنا ہے، آپ اگر ہاں اور نہ میں جواب دیں تو بہتر ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ایکٹ میں پارلیمنٹ کا مسئلہ ازخود نوٹس یا آرٹیکل 184 تھری سے متعلق طریقہ کار بنانا تھا، پارلیمنٹ نے ایکٹ میں از خود نوٹس سے نکل کر ہر طرح کے کیس کیلئے ججز کمیٹی بنا دی، ایک دم سے ساری چیزیں اوپر نیچے کرنا پارلیمنٹ کیلئے ٹھیک نہیں تھا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کے اختیار استعمال کرنے کا بھی کوئی طریقہ کار ہونا چاہیے تھا، اگر غلطیاں سپریم کورٹ میں ہیں تو پارلیمنٹ کی بھی ہیں، جو مسئلہ تھا پارلیمنٹ اس کو ٹھیک کرتی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیں اداروں کی عزت رکھنی چاہیے، پارلیمنٹ ایک سٹیپ آگے جا سکتی تھی لیکن نہیں گئی، پارلیمنٹ کو ہمارے اوپر اعتماد تھا کہ ہم کریں گے، دنیا جو ہے وہ ساتھ مل کے چلتی ہے، پارلیمنٹ ہماری دشمن نہیں ہے نہ ہم پارلیمنٹ کے دشمن ہیں، ہم مل کے چل سکتے ہیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ مان لیتے ہیں پارلیمنٹ کا اختیار قانون سازی ہے مگر جو ایکٹ لائے ہیں اس کو دیکھیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں اس معاملے کا سکوپ بڑھانا نہیں چاہیے، ایک بار ہمیں ایک دوسرے کو کہہ لینے دیں آپ نے ٹھیک کیا ہے، دنیا آگے جا رہی ہے ہم پیچھے، ماحولیاتی تبدیلیوں سمیت بہت سے مسائل ہیں، 40 سال سے قانون سے وابستگی ہے کچھ غیر آئینی ہوا وہ ہم دیکھ لیں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین چیف جسٹس کو ماسٹر آف روسٹر تسلیم نہیں کرتا، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ماسٹر آف روسٹر کی اصطلاح پہلی بار آئی کہاں سے؟، انگلستان سے ہم سیکھتے ہیں کیا وہاں استعمال ہوتا ہے؟، جیسے آئین کا ماخذ میگنا کارٹا ہے، ماسٹر آف روسٹر کا کیا ہے؟۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سکول کے زمانے میں ماسٹر کا سنا تھا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ماسٹر تو ایک ہی ہے اوپر والا، نوآبادیاتی نظام سے ہی ماسٹر کی اصلاح لینی ہے؟، ہم تو 14 سو سال پہلے کی طرف دیکھتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ اصطلاح پسند آئے یا نہ آئے میں اسے شارٹ ہینڈ استعمال کرتا ہوں، اس ایکٹ کے مطابق بھی ماسٹر آف روسٹر تو 3 ججوں کی کمیٹی ہی ہے نا؟، اس میں نہ جائیں کہ کیا نوآبادیاتی ہے کیا نہیں، ہمارے سامنے جو ہے اس پر فوکس کریں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 3 ججوں کو اختیار دیا گیا اس کو فل کورٹ کر دیں نا، کسی کو شکایت ہے پہلے فل کورٹ نہیں ہوتی تھی تو اب کر لیں کس نے روکا ہے؟، ہم کہتے ہیں رولز بنانا فل کورٹ کا اختیار ہے آپ نے اسے 3 رکنی کمیٹی میں جکڑ دیا۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی اور وائس چیئرمین پاکستان بار کے ایکٹ کے حق میں دلائل مکمل کیے گئے تھے۔
ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی نے ایکٹ کے خلاف درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کی تھی۔
ایکٹ کے تحت ازخود نوٹس، اور بینچ تشکیل کا اختیار 3 سینئر ججز کی کمیٹی کو دیا گیا ہے، کیس سماعت کیلئے مقرر کرنے اور درخواستیں لینے کا اختیار بھی کمیٹی کو دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ متاثرہ فریق کو ایک ماہ میں اپیل کا حق، وکیل تبدیل کرنے کی اجازت بھی دی گئی ہے جبکہ ازخود نوٹس کے مقدمات میں ماضی کے فیصلوں پر بھی اپیل کا حق دیا گیا ہے۔