پاکستان کرکٹ اب تک کے کپتانوں کی تاریخ: سب سے کامیاب کپتان کون رہا؟
Share your love
بنگلہ دیش کیخلاف ٹیسٹ سیریز کیلئے سعود شکیل نائب کپتان مقرر،پاکستان کے اب تک کون کون سے کھلاڑی بہترین کپتان ثابت ہوچکے ہیں
پاکستان کرکٹ بورڈ نے بدھ کو بنگلہ دیش کیخلاف دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز کیلئے قومی کرکٹ ٹیم کے 17 رکنی اسکواڈ کا اعلان کردیاہے۔
پی سی بی کے مطابق پاکستان کرکٹ ٹیم کے ٹیسٹ اسکواڈ کی قیادت شان مسعود کریں گے جبکہ مڈل آرڈر بلے باز سعود شکیل کو نائب کپتان مقرر کیا گیا ہے۔
پی سی بی کی جانب سے جاری بیان کے مطابق سعود شکیل کو شاہین شاہ آفریدی کی جگہ نائب کپتان بنایا گیا ہے۔ محمد ہریرہ، کامران غلام اور محمد علی کو ڈومیسٹک کرکٹ میں قابلِ ذکر کارکردگی کی بنیاد پر سکواڈ میں شامل کیا گیا جبکہ امام الحق ، فہیم اشرف اور حسن علی کو گذشتہ سال آسٹریلیا کیخلاف تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں مایوس کن کارکردگی کی بنیاد پر ٹیم سے ڈراپ کیا گیا ہے۔
اب تک کون کون سے کرکٹرز پاکستان کے کپتان رہ چکے ہیں؟
پاکستانی ٹیم شروع ہی سے قیادت کے بحران کا شکار رہی ہے۔ 1952 میں ٹیسٹ کرکٹ کا درجہ حاصل کرنے کے بعد سے اب تک کھیلے گئے 407 ٹیسٹ میچوں میں کل 27 ٹیسٹ کرکٹر پاکستانی ٹیم کی قیادت کر چکے ہیں تاہم ان میں سے محض تین کپتان کوئی واضح تاثر چھوڑنے میں کامیاب ہو پائے ہیں۔ ان میں پاکستان کی اولین ٹیسٹ ٹیم کے کپتان عبدالحفیظ کاردار ، کرکٹ سے فراغت کے بعد سیاسی میدان میں قدم جمانے والے آل راؤنڈر عمران خان اور مصبح الحق شامل ہیں۔ مؤخر الذکر کپتان مصبح الحق کی قیادت میں سب سے زیادہ یعنی 56 ٹیسٹ کھیلے گئے۔مصباح الحق نے سال 2010 سے سال 2017 تک پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم کی قیادت کی۔
اًن تینوں کپتانوں کے انداز ایک دوسرے سے یکسر مختلف تھے۔ تاہم ان میں ایک قدر مشترک تھی اور وہ تھی تعلیمی معیار اور فہم و فراست جس نے ٹیم کے دوسرے کھلاڑیوں کو اُن کی قیادت دل سے قبول کرنے پر مجبور کر دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ٹیسٹ کرکٹ کے انداز میں تبدیلیاں ہوتی رہیں اور اس کھیل کے قوائد و ضوابط بھی تبدیل ہوتے گئے۔
جب کاردار نے کپتانی کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو اُس وقت میڈیا محض ریڈیو یا اخبارات تک محدود تھا۔ لہذا اُنہیں آجکل کے میڈیا کی طرح تند و تیز سوالوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔ تاہم شہرہ آفاق درسگاہ آکسفورڈ سے فارغ التحصیل ہونے کے باعث اُن کے اور باقی کھلاڑیوں کے درمیان خاصہ ذہنی تفاوت ہونے کی وجہ سے کھلاڑی اُن کی قیادت قبول کرتے تھے۔ کاردار کیلئے پاکستان کی اولین ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کی کپتانی ایک بہت بڑے چیلنج سے کم نہ تھی۔ اگرچہ اُن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اُن کی قیادت میں اس اولین پاکستانی ٹیم نے دنیا کے قریب قریب تمام ہی ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والی ٹیموں کے خلاف فتح حاصل کی۔ 1954 میں اوول کے میدان میں انگلستان کے خلاف یادگار جیت اُنہی کی قیادت میں حاصل ہوئی۔ اس کے علاوہ 1957 میں آسٹریلیا کے خلاف کراچی میں پاکستان کی پہلی جیت نے بھی پاکستانی کرکٹ کی تاریخ بدل ڈالی۔ تاہم جب 1954-55 میں بھارتی ٹیم کے پہلے پاکستانی دورے کے تمام کے تمام پانچ ٹیسٹ میچ ہارجیت کے بغیر ختم ہو گئے تو کاردار کو دفاعی انداز اپنانے پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ دونوں ممالک میں سیاسی کشیدگی کے باعث کپتانوں اور کھلاڑیوں کو سیریز ہارنے کاخوف تھا۔ اسلئے کوئی بھی ٹیم اپنے دفاعی حصار سے باہر نہ نکل سکی۔ کاردار کی کپتانی میں کل 23 ٹیسٹ کھیلے گئے جن میں سے پاکستان نے 6 جیتے اور 6 ہی میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ باقی 11 ٹیسٹ ہارجیت کے بغیر ختم ہوئے۔
عظیم آل راؤنڈر اور کپتان عمران خان نے کاردار کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُن کی ریٹائرمنٹ کے نتیجے میں پاکستانی ٹیم کو بھیڑیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ۔
دوسرے کامیاب ترین کپتان عمران خان بھی آکسفورڈ یونیورسٹی سے ہی فارغ التحصیل ہیں۔اُنہوں نے 1982 میں کپتانی کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ اُن کی قیادت میں کل 48 ٹیسٹ کھیلے گئے جن میں سے پاکستان نے 14 ٹیست جیتے، 8 ہارے اور باقی 26 ہارجیت کے بغیر ختم ہوئے۔ عمران خان نے بین ا لاقوامی کرکٹ کا آغاز ایک اوسط درجے کے فاسٹ باؤلر سے کیا لیکن چند ہی برسوں میں اُنہوں نے ایک عظیم آل راؤنڈر کی حیثیت سے اپنا لوہا منوا لیا۔ اُنہوں نے بھی اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی بنا پر اپنے پیش رو کی طرح بہت سے نئے کرکٹرز کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ ذاتی کارکردگی کے علاوہ کپتان کی حیثیت سے اُن کی اہم ترین کامیابی 1992 میں ورلڈ کپ جیتنا تھا۔ عمران کو جو بات دوسرے کپتانوں سے جدا کرتی ہے وہ اُن کا جیت کیلئے غیر متزلزل یقین، اعتقاد اور بے پناہ ذہانت تھی۔ لاہور کے گدافی اسٹیڈیم میں ویسٹ انڈیز کے خلاف سنچری اسکور کرنے بعد راقم الحروف سے بات کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا تھا کہ جو ٹیم ہار سے بچنے کی خاطر دفاعی حکمت عملی سے کھیلتی ہے، ہار اُس کا مقدر بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے ہمیشہ جارحانہ انداز اپنایا اور اس میں خاصی حد تک کامیاب بھی رہے۔ عمران خان اپنے پیش رو حفیظ کاردار کی طرح پاکستانی کرکٹ کو شہرت اور معیار کی بلندیوں پر لے گئے ۔ اپنے کیرئر کی انتہا پر اُن کی شہرت کرکٹ سے بلند ہو کر ایک بین الاقوامی سپر اسٹار کی حیثیت اختیار کر گئی۔
مصبح الحق نے کرکٹ ٹیم کی کپتانی ایسے وقت میں سنبھالی جب پاکستان کی کرکٹ ٹیم تین اہم ترین کھلاڑیوں پر اسپاٹ فکسنگ کا الزام ثابت ہو نے کے بعد شدید مایوسی اور خلفشار کا شکار تھی۔ اُنہیں 2010 میں 36 سال کی عمر میں ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹونٹی ٹونٹی ٹیموں سے باہر کر دیا گیا تھا تاکہ نسبتاً کم عمر کھلاڑیوں کو موقع دیا جا سکے۔ اُنہوں نے سنجیدگی سے ریٹائرمنٹ کے بارے میں غور کرنا شروع کر دیا۔ ایسے حالات میں جب اُس وقت کے کرکٹ بورڈ چیف اعجاز بٹ نے اُنہیں کپتانی کی پیشکش کی تو دوسرے تمام حلقوں سمیت وہ خود شدید حیرت میں مبتلا ہو گئے اور اُنہوں نے اس پیشکش کا جواب دینے دینے کیلئے چند روز کی مہلت مانگی۔ مصباح نے یہ بات ایک ہفتے تک سب سے پوشیدہ رکھی حتیٰ کہ خود اپنے خاندان کو بھی اس کا علم نہ ہونے دیا۔ سلیکشن کمیٹی کے سربراہ محسن حسن خان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو وہ جذباتی انداز میں یہ کہہ گئے کہ اس کا سلیکشن کمیٹی سے کوئی تعلق نہیں۔
بہرحال، پاکستانی ٹیم اسپاٹ فلسنگ سکینڈل کے باعث جس کیفیت سے گزر رہی تھی، اُس میں ٹیم کی قیادت سنبھالنا اور اسے واپس کامیابیوں کی جانب لیکر جانا کوئی آسان کام نہ تھا۔ لیکن اُنہوں نے اس ذمہ داری کو بہت ذہانت اور خوش اصلوبی سے نبھایا۔ وہ بھی ٹیم کے باقی ارکان کے طرف سے مکمل وفاداری اور تعاون حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ کپتانی کے دوران اُن کی ذاتی کارکردگی میں بھی اس قدر نکھار پیدا ہوا کہ وہ مڈل آرڈر میں ایک انتہائی قابل اعتماد بیٹسمین کی حیثیت سے اُبھرے۔اُن کی قائدانہ صلاحیتوں میں بھی اُن کی اعلیٰ تعلیم کا بھرپور کردار تھا۔ مصباح نے یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائینسز سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی۔ ایک اور بحران جس کا مصباح کو سامنا رہا ، وہ یہ تھا کہ ملک کے اندر دہشت گردی کی وجہ سے بین الاقوامی کرکٹ نہ ہونے کے باعث تمام تر میچ بیرن ملک ہی کھیلے گئے۔ تاہم مصباح کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے 56 ٹیسٹ کھیلے جن میں سے 26 جیتے، 19 ہارے جبکہ باقی 11 ہارجیت کے بغیر ختم ہوئے۔ یوں مصباح کی قیادت میں پاکستانی ٹیم کی جیت کا ریکارڈ سب سے بہتر ہے۔ اُنہی کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے ورلڈ نمبر ون رینکنگ بھی حاصل کی۔
مصباح الحق کے چیلنج ان دونوں سابق کپتانوں سے مختلف تھے ۔ ان حالات میں ٹیم کو ورلڈ نمبر ون تک لیجانے میں مصابح کی غیر معمولی قیادت کا کردار بہت اہم ہے۔ اب جبکہ مصباح 42 برس کی عمر میں بین الاقوامی کرکٹ کو خیرباد کہ چکے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ سرفراز اور دیگر آنے والے قائدین تینوں غیر معمولی کپتانوں کی میراث کو آگے بڑھانے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ یکم مئی سے انگلستان میں شروع ہونے والی چیمینز ٹرافی سرفراز اور اُن کے کھلاڑیوں کیلئے ایک کڑا امتحان ثابت ہو گی خاص طور پر جب مڈل آرڈر میں اب اُنہیں مصباح اور یونس جیسے قابل اعتماد بیٹسمینوں کی خدمات بھی میسر نہیں ہوں گی۔
سعود شکیل کون ہیں؟
سعود شکیل وہ پہلے پاکستانی بلے باز ہیں جنھوں نے سری لنکا کیخلاف ہوم گراؤنڈ پر ڈبل سنچری بنا رکھی ہے۔ ان کے ٹیسٹ کریئر کی اگر بات کریں تو وہ اب تک 10 ٹیسٹ میچز کی 19 اننگز میں 60 کی اوسط کے ساتھ 967 رنز بنا چکے ہیں جبکہ ان کا بہترین سکور ناقابل شکست 208 ہے۔
سعود شکیل نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں بھی رنز کے انبار لگائے ہیں۔ 73 فرسٹ کلاس میچوں میں انھوں نے 19 سنچریوں اور 24 نصف سنچریوں کی مدد سے 5552 رنز بنائے ہیں۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں ان کا ٹاپ سکور 187 تھا۔
سعود شکیل نے سال 2015 میں فرسٹ کلاس میچ کر کیریئر کی شروعات کی تھی۔پاکستان کی جانب سے کھیلتے ہوئے سال 2021 میں انگلینڈ کیخلاف ایک روزہ میچ جبکہ سال 2022 میں راولپنڈی میں انگلینڈ کیخلاف ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کیا تھا۔
پی سی بی کا ڈومیسٹک کرکٹ کو بہتر بنانے پر زور؟
حال ہی میں چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نے کہا ہے کہ ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنا اب تمام کھلاڑیوں کے لیے لازمی ہو گا۔
پی سی بی کی جانب سے ڈومیسٹک کرکٹ میں نئی پالیسیوں کا اعلان بھی کیا گیا ہے جو ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان کرکٹ ٹیم کی ناقص کارکردگی کے سبب کھلاڑیوں اور بورڈ کے حکام پر سخت تنقید کی جا رہی تھی۔
قومی کرکٹ ٹیم کے17 رکنی اسکواڈ میں عبداللہ شفیق، ابرار احمد، بابر اعظم، کامران غلام، خرم شہزاد، میر حمزہ، محمد علی، محمد ہریرہ، محمد رضوان، نسیم شاہ، صائم ایوب، سلمان علی آغا، سرفراز احمد اور شاہین شاہ آفریدی شامل ہیں۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان پہلا ٹیسٹ میچ 21 سے 25 اگست تک راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم جبکہ دوسرا ٹیسٹ میچ 30 اگست سے 3 ستمبر تک نیشنل کرکٹ اسٹیڈیم کراچی میں کھیلا جائے گا۔قومی کرکٹ ٹیم کا تربیتی کیمپ 11 اگست کو راولپنڈی اسٹیڈیم میں شروع ہوگا اور اس کی نگرانی ریڈ بال کے ہیڈ کوچ جیسن گلیسپی اور اسسٹنٹ کوچ اظہر محمود کریں گے۔ جیسن گلیسپی کی ریڈ بال ہیڈ کوچ کی حیثیت سے پہلی ٹیسٹ سیریز ہوگی۔بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم 17 اگست کی صبح اسلام آباد پہنچے گی اور اسی دوپہر کو ٹریننگ کرے گی۔