شہزاد اکبر واپس آنا چاہیں تو عدالت انہیں خوشی سے تحفظ دے گی، اسلام آباد ہائیکورٹ
Share your love
اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ اگر شہزاد اکبر واپس آنا چاہتے ہیں تو عدالت خوشی سے انہیں پروٹیکشن فراہم کرے گی، نیب نے شہزاد اکبر کا القادر ٹرسٹ کیس میں ویڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کرنے کی مخالفت کردی جس پر عدالت نے آئندہ سماعت پر عدالت حوالوں کے ساتھ دلائل طلب کرلیے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے شہزاد اکبر کی القادر ٹرسٹ کیس میں نیب کو ویڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کرانے کی درخواست پر سماعت کی۔
وکیل نے استدعا کی کہ شہزاد اکبر کو پاکستانی سفارت خانے سے ویڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کرانے کی اجازت دی جائے، شہزاد اکبر نیب کے تمام سوالوں کے ویڈیو لنک پر جوابات تیار ہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آپ نے پروٹیکشن کی بھی استدعا کی ہے، کیا شہزاد اکبر واپس پاکستان آنا چاہتے ہیں؟ اگر شہزاد اکبر پاکستان آنا چاہیں تو ہم انہیں پروٹیکشن دیں گے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ اگر شہزاد اکبر پاکستان آ جائیں تو ہم ان کی پروٹیکشن میں توسیع بھی کر دیں گے۔
وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ شہزاد اکبر نے نیب کے سوال نامے کا تحریری جواب بھی دیا ہے، شہزاد اکبر پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے ان کے بھائی کو بھی اٹھالیا گیا، شہزاد اکبر کے بھائی کو غیرقانونی طور پر اٹھا کر دو ماہ زیرحراست رکھا گیا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ شہزاد اکبر کا بھائی کیا کہتا ہے؟ اسے عدالت کے سامنے لے کر آئیں، اگر نیب نے کسی اور ایجنسی کے ساتھ مل کر شہزاد اکبر کے بھائی کو اٹھایا ہے تو وہ عدالت میں آ کر بتائے، وہ عدالت کے سامنے آ کر نہیں بتاتا تو یہ بات میں اپنے فیصلے میں کس طرح لکھ دوں؟
وکیل قاسم ودود نے کہا کہ شہزاد اکبر عدالت سے پروٹیکشن چاہتے ہیں اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ شہزاد اکبر پاکستان آئیں ہم انہیں خوشی سے پروٹیکشن دیں گے۔
نیب پراسکیوٹر سردار مظفر عباسی نے کہا کہ شہزاد اکبر نیب کے ملزم ہیں اور انہیں پیشی کے چھ سمن جاری کیے گئے، ویڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کرانے کی سہولت صرف گواہوں کو دی جا سکتی ہے، شہزاد اکبر کی مسلسل عدم پیشی پر ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے ہیں جبکہ شہزاد اکبر کے بھائی کے معاملے سے نیب کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
عدالت نے کہا کہ قاسم ودود صاحب آئندہ سماعت پر تیاری کرکے اور عدالتی فیصلوں کے حوالوں کے ساتھ دلائل دیں، جس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔