رضوانہ تشدد معاملہ،انسانی حقوق کمیٹی کا حکومت سے سول جج کو خدمات سے ہٹانے کا مطالبہ
Share your love
اسلام آباد:انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی نے کم عمر گھریلو ملازمہ رضوانہ پر مبینہ تشدد کے معاملے پر حکومت سے سول جج کی خدمات کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے سول جج کی اہلیہ کی جانب سے کم عمر گھریلو ملازمہ رضوانہ پر مبینہ تشدد پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزارت قانون و انصاف کو فوری طور پر مذکورہ سول جج کی ملازمت سے برطرفی کے لیے کارروائی شروع کرنی چاہئے۔
ڈاکٹر مہرین رزاق بھٹو، ایم این اے کی زیر صدارت منعقد ہوا۔
کمیٹی کو بچوں کے حقوق سے متعلق قومی کمیشن (NCRC) کی چیئرپرسن نے مختصر طور پررضوانہ نامی ایک معصوم لڑکی کے ساتھ پیش آنے والے افسوسناک واقعے کے بارے میں جو سول جج کے گھر میں ملازمہ تھی سے آگاہ کیا۔
انہوں نے کمیٹی کو مزید بتایا کہ یہ واقعہ 24 جولائی 2023 کو پیش آیا اور 2 دن بعد میڈیا میں رپورٹ کیا۔ ابتدائی طور پر ایف آئی آر بہت کمزور تھی تاہم میڈیکو لیگل رپورٹ کی بنیاد پر کیس کو مزید مضبوط کرنے کے لیے ایف آئی آر میں کچھ اور سیکشنز شامل کی گئیں۔
ڈی آئی جی، آئی سی ٹی پولیس نے بھی چیئرپرسن این سی آر سی کے بیان کی تائید کی۔قائمہ کمیٹی کی چیئرپرسن نے اسلامی جمہوریہ پاکستان 1973 کے آئین کے آرٹیکل نمبر 3، 11، 23، 25-A، 35 اور 37 (a) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ افسوسناک واقعہ انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے اس لیے ذمہ داروں کو زیادہ سے زیادہ سزا دینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے وزارت قانون و انصاف پر زور دیا کہ وہ عدالتی ضابطہ اخلاق کے مطابق اپنا کردار ادا کرے، سول جج کے خلاف تعزیری کارروائی کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے اور کمیٹی کو رپورٹ پیش کرے۔ تاہم کمیٹی نے ڈی آئی جی، آئی سی ٹی پولیس کو ہدایت کی کہ وہ غیر جانبدارانہ انکوائری کریں۔ ہر قسم کے دباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے رپورٹ کو حتمی شکل دیں اور جلد از جلد کمیٹی کو پیش کریں۔
کمیٹی نے وزارت انسانی حقوق کو مزید ہدایت کی کہ وہ پالیسی کے مسودے پر اپنی رائے دیں۔ چائلڈ رائٹس کمیشن کی طرف سے تیار کیا گیا ہے، اور اسے 7 اگست 2023 کو ہونے والے اگلے اجلاس میں کمیٹی کو پیش کریں گے۔