Enter your email address below and subscribe to our newsletter

فوجی عدالتیں کیس ، فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ ، کل سنایا جائے گا

Share your love

اسلام آباد:سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف کیس ،سپریم کورٹ نے فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا جو کل سنایا جائے گا۔دوران سماعت اکثریتی درخواست گذاران نے چھ رکنی لارجر بنچ پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے فل کورٹ کی مخالفت کردی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف کیس پر سماعت کی۔دوران سماعت وکیل درخواست گذار فیصل صدیقی نے فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا افتخار چوہدری کی بحالی سے متعلق فل کورٹ کے فیصلے کی فوجی آمر پرویز مشرف بھی مخالفت نہ کرسکا ۔

جسٹس منصور علی شاہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی فل کورٹ تشکیل دینے کی بات کی،اٹارنی جنرل بتا چکے ہیں کہ کسی شخص کو سزائے موت یا عمر قید نہیں ہو گی،جبکہ یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے کہ عدالت کے علم میں لائے بغیر عام شہریوں کا ملٹری ٹرائل شروع نہیں ہو گا،جب اداروں کے درمیان تصادم کا خطرہ ہو تو فل کورٹ بنانی چاہئے، فل کورٹ کا بنایا جانا ضروری ہے، سپریم کورٹ ایک فیصلے میں قرار دے چکی ہے اگر ایک جج کیس سننے سے انکار کرے تو اسے وہ کیس سننے کا نہیں کہا جاسکتا ہے، عدالتی تاریخ میں ملٹری کورٹس کیسز فل کورٹ نے ہی سنے ہیں، حکومت کا سپریم کورٹ کیلئے توہین آمیز رویہ ہے،اگر کچھ ماہ کی تاخیر ہوجائے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے فل کورٹ کے لیے یہ پہلی درخواست آئی ہے،ہم باقی درخواست گزاروں کا موقف بھی سننا چاہتے ہیں۔درخواست گذار اعتزاز احسن نے کہا ہم نے اپنی درخواست میں فل کورٹ تشکیل دینے کی بات کی تھی ،تاہم اب کیس کافی حد تک سنا جاچکا ہے ،کیس کے تاخیر ہونے کا اندیشہ ہے ،ہمیں چھ رکنی لارجر بنچ پر اعتماد ہے،فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست اس تاریخی لمحے کو روکنے کی کوشش ہے جو رونما ہونے والا ہے۔

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل احمد حسین نے کہا وہ اپنے موکل سے ہدایات لیکر عدالت کو آگاہ کریں گے۔صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن ،چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سمیت دیگر درخواست گذاران نے بھی چھ رکنی لارجر بنچ پر اعتماد کرتے ہوئے فل کورٹ تشکیل دینے کی مخالفت کردی۔ایک درخواست گذار نے فوج کی حراست میں موجود افراد کو جوڈیشل حراست میں دینے کی بھی استدعا کی۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل نے دلائل میں بتایا سویلین کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل سے قبل انتہائی احتیاط کا مظاہرہ کیا گیا ،جی ایچ کیو حملے میں ملوث سات ،آرمی انسٹی ٹیوٹ حملے پر چار ،کور کمانڈر لاہور حملے کے 28،ملتان اور گوجرانوالہ گریثرن حملے میں پندرہ ،آئی ایس آئی فیصل آباد حملے میں آٹھ،پی ایف بیس میانوالی حملے میں ملوث پانچ افراد زیر حراست ہیں۔اسی طرح چک درہ حملے میں ملوث چودہ ،پنجاب رجمنٹ سنٹر مردان میں سات ،ایبٹ آباد اور مردان گریثرن حملے میں تیرہ جبکہ آئی ایس آئی حمزہ کیمپ حملے میں ایک شخص زیر حراست ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے سوال اٹھایا افراد کی گرفتاری کے لیے کیا طریقہ کار اپنایا گیا ہے۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا ہم سی سی ٹی وی فوٹیج اور شوائد کی روشنی میں افراد کو حراست میں لیا۔بعد ازاں عدالت نے فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا جو کل سنایا جائے گا۔

Share your love

Stay informed and not overwhelmed, subscribe now!