ایسے شخص کے لیے سرکاری اعزار جس کی سماجی خدمات کا حکومت کو بھی معلوم نہیں
Share your love
صدر مملکت کی جانب سے ہر سال کی یوم آزادی پر اس مرتبہ بھی 104 ملکی اور غیر ملکیوں کو پاکستان کے لیے خصوصی خدمات پر اعلیٰ سول ایوارڈ دینے کی منظوری دی گئی۔
صدر آصف علی زرداری کی جانب سے قومی اعزاز کے لیے نامزد ناموں میں سب سے چونکا دینے والا نام عمر فاروق کا ہے۔
اس فیصلےپر جہاں پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے وہیں حکومت کے حمایتی کہ اس فیصلے پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں کہ ایسے شخص کے لیے سرکاری اعزار کا اعلان کر دیا گیا ہے جس کی سماجی خدمات کا خود حکومت کو بھی معلوم نہیں۔
عمر فارق کون ہیں؟
عمر فاروق کی سماجی خدمات کا تو کہیں ذکر نہیں ملتا تاہم وہ ایک پاکستانی نژاد اماراتی کاروباری شخصیت ہیں جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے مشیر شہزاد اکبر نے ان سے فون پر رابطہ کیا تھا اور انہیں پیشکش کی تھی کہ وہ عمران خان کو تحفے میں ملنے والی خانہ کعبہ کے لوگو والی گراف کی قیمتی گھڑی خرید لیں۔
ان کے دعوے کے مطابق اس کے بعد فرح گوگی وہ گھڑی لے کر دبئی ان کے پاس آئیں جہاں انہوں نے گھڑی خریدی۔
عمر فاروق پر حکومتی مؤقف کیا ہے؟
اس حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی بی اردو سے بات کرتے ہوئے سرکاری اعزازات کے حوالے سے ناموں کی منظوری کے لیے قائم کی گئی کمیٹی کے سربراہ اور وفاقی وزیر احسن اقبال کا کہنا ہے کہ انھیں یاد نہیں کہ انھوں نے عمر فاورق کا نام ایوارڈ لینے والوں کو فہرست میں شامل کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر صوبے کی اس حوالے سے ایک کمیٹی ہوتی ہے جو اپنی سفارشات ایوارڈ حاصل کرنے والوں کی فہرست تیار کرنے والی کمیٹی کو بھیجتی ہے اور ان کی کمیٹی میں صوبائی سطح پر قائم کی گئی سب کمیٹیوں کی سفارشات کو بھی زیر غور لایا جاتا ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ایوارڈ حاصل کرنے والے ناموں کی فہرست تیار کرنے والی کمیٹی ناموں کو اپنے طور پر منتخب کر کے اس فہرست کو وزیر اعظم سیکریٹریٹ بجھوا دیتی ہے جہاں پر اسے حتمی شکل دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم آفس میں بھی اس فہرست میں مختلف لوگوں کے نام شامل کیے یا نکالے جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ عمر فاروق کو سول ایوارڈ ’ہلال امتیاز‘ 23 مارچ 2025 کو خصوصی تقریب کے دوران دیا جائے گا۔