پی پی پی اور جے یو آئی کا مجوزہ آئینی ترامیم کے مسودے پر اتفاق
Share your love
کراچی:پاکستان پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے مجوزہ آئینی ترامیم کے مسودے پر اتفاق کرلیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے صدر نواز شریف سے ملاقات کرکے مکمل اتفاق رائے کی کوشش کریں گے۔
چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری اور جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بلاول ہاؤس میں پریس کانفرنس کیا جہاں ان کے ساتھ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، نثار کھوڑو، راشد محمود سومرو، نوید قمر اور شازیہ مری بھی موجود تھیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ میں بلاول ہاؤس میں ملاقاتی کے طور پر نہیں مہممان کے طور پر بھی آیا ہوں، ہم دو جماعتوں کا مسودہ پر اتفاق ہوگیا ہے اور آج نواز شریف سے ملاقات ہے اور پاکستان تحریک انصاف کی قیادت سے بھی ملاقات کروں گا اور کوشش کریں گے کہ آئینی ترمیم متفقہ طور پر منظور کروائی جائے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے مسودے کو میں نے مسترد کیا تھا اور آج بھی مسترد کرتا ہوں، پی پی پی اور ہم نے ڈرافٹ بنایا ہے، مسلم لیگ (ن) سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں کہ جمہوریت کو طاقت ور بنانا ہے اور آئین کو بچانا ہے، پارلیمنٹ کو آئندہ کے لیے مضبوط کرنا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پہلا مسودہ قابل قبول نہیں ہے، ہمارے ڈرافٹ پر اتفاق ہوتا ہے تو جی بسم اللہ۔
انہوں نے کہا کہ جے یو آئی میثاق جمہوریت پر دسختط نہیں کیا تھا، اصولی باتیں جو ملک اور جمہوریت کے لیے ہوتی ہیں وہ کرنی چاہیے، نفرتوں سے کسی کو فائدہ نہیں ہو رہا ہے، ہم ملک کے فائدہ نقصان دیکھ کر بات کر رہے ہیں، یہ مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک سیاسی معاہدہ ہے، جب کوئی مسئلہ ہوگا تو تمام جماعتیں اس معاہدے کو بھی دیکھیں گی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم مولانا فضل الرحمان کے شکرگزار ہیں، کامیاب آئین سازی میں ہمیشہ جے یو آئی اور پی پی پی کا کردار رہا ہے، مزید اتفاق رائے بنانے کی ضروررت ہے، کل نواز شریف سے مولانا صاحب مل رہے ہیں اور ہمیں بھی کھانے کی دعوت دی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مولانا صاحب کی خواہش ہے کہ پی ٹی آئی سمیت تمام پارلیمانی جماعتوں سے مشاورت کی جائے، اس سے بہتری آئے گی اور کمزوری نہیں آئے گی، ہمارا زور صرف اتنا ہے کہ عوام کے مسائل کا حل نکالا جائے اور یہ خوش خبری سب سے شیئر کرنا چاہ رہا تھا۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مولانا صاحب نے میرے بڑوں کے ساتھ کام کیا ہے، کل نواز شریف سے مل رہے ہیں، مسلم لیگ(ن) سرگرم نہیں تھی اس پر اتفاق نہیں کرتا کیونکہ ان کا اپنا طریقہ ہے اور ہمارا اپنا طریقہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں وکلا، سول سوسائٹی سیاسی تنظیموں سے ان پٹ لے رہا ہوں، میں ان پٹ اور تجویز لینے کے لیے تیار ہوں، میں چاہوں گا کہ بلیک کوٹ کے دباؤ میں آکر جس طرح انیسویں ترمیم منظور کروائی وہ آئندہ نہ ہو، اٹھارویں ترمیم کو جب ہم متعارف کروا رہے تھے تو ایک مہم چلی تھی، اس وقت ریاست کو ماں کا کردار ادا کرنا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اس پراسیس میں کچھ قربانیاں دیں، اس وقت سیاسی ماحول سے سیاسی راستہ نظر آ رہا ہے۔