پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف سطح کے معاہدے کے لئے پیشرفت
Share your love
اسلام آباد: پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) جائزہ مشن کے درمیان نئے قرض پروگرام کے لیے مذاکرات میں اسٹاف سطح کے معاہدے پر اتفاق نہیں ہوسکا ہے البتہ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ 10 روزہ مذاکرات میں اسٹاف لیول معاہدے کے لیے پیشرفت ہوئی ہے پالیسی پر پاکستانی حکام سے ورچوئل بات چیت جاری رہے گی اور ورچوئل بات چیت میں پاکستان کے لیے نئے پروگرام کو حتمی شکل دینے پر بات ہوگی۔
پاکستان کا دورہ مکمل کرنے کے بعد آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی درخواست پر آئی ایم ایف وفد نے پاکستان کا دورہ کیا، دورے میں نئے پروگرام سے متعلق پاکستان کی درخواست کا جائزہ لیا گیا۔
آئی ایم ایف اعلامیے کے مطابق پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف لیول معاہدے کے لیے مناسب پیشرفت ہوئی ہے جس میں جامع اقتصادی پالیسی اور ریفارمز پروگرام پر بات چیت ہوئی ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مطابق ریفارمز پروگرام کا مقصد پاکستان میں مستحکم گروتھ کا ہدف حاصل کرنا ہے، ریفامز کے ذریعے پاکستان کی ٹیکس آمدن اور وسائل کو بڑھانا ہے، انسانی وسائل کی ترقی، سماجی تحفظ، ماحول اور موسمی تبدیلیوں سے اثرات سے نمٹنا ہے، اس کے علاوہ توانائی کے شعبے کو قابل بھروسہ بنانا، توانائی کی بھاری لاگت کو کم بھی کرنا ہے۔
آئی ایم ایف کے مطابق افراط زر میں کمی، ریاستی اداروں کی تنظیم نو اور نجکاری بھی ریفارمز میں شامل ہیں، اصلاحات کا مقصد نجی شعبے کی ترقی ہے، آئی ایم ایف ٹیم پاکستانی حکام کی نجی شعبے کے ساتھ مفید بات چیت کے لیے شکر گزار ہے۔
خیال رہے کہ اسٹاف لیول معاہدے سے قبل پاکستان کو کئی پیشگی شرائط پر عمل کرنا تھا جبکہ نئے مالی سال کا بجٹ بھی آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق پیش کرنا ہوگا۔
حکومت نے اگلے سال پیٹرولیم پر جی ایس ٹی کے بجائے کاربن لیوی عائد کرنے پر غورشروع کر دیا ہے جبکہ نئے ٹیکسوں کا نفاذ، بجلی و گیس ٹیرف میں اضافہ اور توانائی شعبے میں اصلاحات شرائط میں شامل ہیں۔
حکومت پیٹرولیم مصنوعات پر پہلے ہی 60 روپے فی لیٹر پیٹرولیم لیوی وصول کر رہی ہے، اگلے مالی سال پیٹرولیم لیوی سے ایک ہزار 80 ارب روپے حاصل ہونے کا تخمینہ ہے جبکہ اگلے دو سال میں پیٹرولیم لیوی کی مد میں 2295 ارب روپے آمدن کا امکان ہے۔ اس سے اگلے سال پیٹرولیم لیوی سے حاصل ہونے والی آمدن ایک ہزار 215 ارب روپے تک پہنچ جائے گی۔