رضوانہ تشدد کیس،سومیا عاصم کے سات روز کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد، وڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل
Share your love
اسلام آباد :رضوانہ تشدد کیس میں سول جج عاصم حفیظ کی اہلیہ سومیا عاصم کے سات روز کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد ، عدالت نے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوادیا ۔
رضوانہ تشدد کیس میں سی سی ٹی وی ویڈیو نے بھی نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔۔ جج کی اہلیہ ملزمہ سومیا عاصم کی عدالت میں پیش کی گئی 23 جولائی کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آگئی۔ جبکہ ملزمہ کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست پر عدالت نے پولیس کو دس اگست کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے دلائل طلب کرلیے ہیں۔
رضوانہ تشدد کیس میں ملزمہ سومیا عاصم کو جوڈیشل مجسٹریٹ شائستہ کنڈی کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں پولیس نے ملزمہ کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے کہ سی سی ٹی وی اور رقم ادائیگی کی رسیدیں حاصل کرنا ہے۔
عدالت نے کہا کہ کسی خاتون ملزمہ کا کن صورتوں میں جسمانی ریمانڈ ہوسکتا ہے وکیل نے بتایا کہ صرف قتل اور ڈکیتی کے مقدمے میں جسمانی ریمانڈ ہوسکتا ہے ۔
عدالت نے کہا کہ ہم نے میڈیا کو نہیں قانون کو دیکھنا ہے اس صورتحال میں ریمانڈ نہیں بنتا۔ ملزمہ سومیا عاصم کو روسڑم پر بلایا تو ملزمہ سومیا نے کمرہ عدالت میں کہا کہ میں پولیس تفتیش ہر طرح کا تعاون کررہی ہوں، مجھے جے آئی ٹی میں رات ساڑھے گیارہ بجے تک بیٹھایا گیا میں تین بچوں کی ماں ہوں۔
ملزمہ نے مزید کہا کہ میں دو بار شامل تفتیش ہوئی، مجھے ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے، مجھے کل ایک گھر میں لیکر گئے وہاں سے چیزیں اکٹھی کی ہیں, میں نے ہمیشہ تفتیش میں تعاون کیا ہے، مجھے ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، جتنا میرا میڈیا ٹرائل ہوا ہے مجھے خود کشی کر لینی چاہیے۔
ملزمہ سومیا نے کہا کہ بچی میرے ساتھ کام نہیں کرتی تھی، ممیری اس کی ماں کیساتھ نیکی میرے گلے پڑ گئی ،بچی مٹی کھاتی تھی، ملزمہ نے کئی بار انکی فیملی کو کہا بچی کو لے جائیں ۔
ملزمہ سومیا عاصم کمرہ عدالت میں رو پڑیں استدعا کی مجھے فیملی سے ملنے کی اجازت دی جائے عدالت نے استدعا منظور کرتے ہوئے ملنے کی اجازت دے دی۔
رضوانہ تشدد کیس میں ملزمہ سومیا عاصم کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کردیا گیا ہے ۔
جوڈیشل مجسٹریٹ شائستہ کنڈی نے فیصلہ جاری کیا ۔ عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ پولیس نے ملزمہ کے سات روز جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جبکہ پولیس دوران تفتیش ملزمہ سے متعلقہ ریکوریز کر چکی ہے۔
ملزمہ کے وکیل نے کہا دوران تفتیش پہلے بھی تعاون کیا آگے بھی تعاون کے لیے تیار ہیں۔ ملزمہ کے وکیل نے مزید جسمانی ریمانڈ دینے کی مخالفت کی ۔
عدالت نے حکمنامہ میں لکھا کہ پولیس نے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی لیکن ساتھ تسلیم بھی کیا انہوں نے ریکوریز کر لی ہیں ، مزید جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا کر پولیس مطمئن کرنے میں ناکام رہی ۔
ملزمہ خاتون ہے اور قانونی طور پر کیس قتل ڈکیتی کا نہیں جہاں ریمانڈ دیا جائے ،جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کی جاتی ہے ملزمہ کو 22 اگست کو جیل سے پیش کیا جائے۔
مقدمے سے جڑی سی سی ٹی وی فوٹیج نے بھی نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔ سی سی ٹی وی فوٹیجز کے مطابق متاثرہ بچی رضوانہ بس سٹینڈ پر والدہ کے حوالے کی گئی۔
23 جولائی کو کم عمر ملازمہ 6 بج کر 57 منٹ پر نجی ہاؤسنگ سوسائٹی سے گاڑی میں روانہ ہوتے نظر آرہی ہے ، رات 8 بجکر 9 منٹ پر گاڑی نجی بس سٹینڈ پر پہنچتی ہے ،گاڑی سے بچی خود اترنے کی کوشش سے ناکامی کے بعد سہارا لیکر اترتی ہے،
متاثرہ بچی کو لڑکھڑا کر چلتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے بینچ پر بھی بچی ماں کے سہارے بیٹھتی دکھائی دیتی ہے، آٹھ بج کر 9 منٹ پر کم عمر ملازمہ کی والدہ بس سٹینڈ پر موجود نظر آتی ہے ۔
نجی ہاؤسنگ سوسائٹی سے جس گاڑی میں رضوانہ کو لایا گیا وہ گاڑی بس اڈے پر رکتی ہے ،1 گھنٹہ 37 منٹ کے بعد کم عمر ملازمہ اور اس کی والدہ شمیم بس سٹینڈ سے روانہ ہوتے ہیں۔
سی سی ٹی وی میں بس سٹینڈ موجودگی کے دوران کم عمر ملازمہ کو بیٹھے دیکھا جا سکتا ہے، 8 بج کے 25 منٹ پر کم عمر ملازمہ پانی پیتے دیکھائی دے رہی ہے۔ کم عمر بچی بےسود لیٹی دیکھائی دے رہی ہے۔
بس سٹینڈ پر موجودگی کے دوران کم عمر ملازمہ کی والدہ مسلسل موبائل استعمال کرتے دیکھائی دے رہی ہے ، کم عمر بچی کی والدہ شمیم کے کہنے پر بس کو بنچ کے قریب لایا جاتا ہے، کم عمر بچی کو ایک شخص اٹھا کر گاڑی میں سوار کرتا ہے۔
کمسن ملازمہ رضوانہ تشدد کیس میں مرکزی ملزمہ سومیا عاصم نے ضمانت کی درخواست دائر کردی۔
عدالت نے دس اگست کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔
ایڈووکیٹ قاضی دستگیر کے زریعے دائر کی گئی درخواست پر جوڈیشل مجسٹریٹ شائستہ کنڈی نے سماعت کی ۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی آر میں لگائے گئے الزامات بے بنیاد، مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں، کوئی شک نہیں کہ رضوانہ والدین کی اجازت سے سومیا عاصم کے گھر رہائش پذیر تھیں، سومیا عاصم کا رضوانہ کے ساتھ رویہ ایسا ہی تھا جیسا ان کے اپنے بچوں کے ساتھ تھا، سومیا عاصم کیخلاف حقائق کو توڑ مروڑ پر پیش کیا گیا۔
سومیا عاصم میڈیا میں منفی کیمپین کے باعث زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں، سومیا عاصم پڑھی لکھی، عزت دار اور شائستہ خاتون ہیں۔
سومیا عاصم معصوم ہیں، مقدمے میں غلط طریقے سے شامل کیا گیا ہے، ایسے کوئی شواہد نہیں جو سومیا عاصم کو لگائے گئے الزامات سے جوڑ سکیں، سومیا عاصم کی مقدمے میں شمولیت بدنیتی اور مزموم مقاصد کے حصول کیلئے ہے۔
عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ سومیا عاصم کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرے۔
اس کیس سے قبل 2016 میں جج راجہ خرم علی خان کے گھر کم سن ملازمہ طیبہ پر تشدد کا کیس سامنے آیا تھا جس میں الزام ثابت ہونے پر جج راجہ خرم علی خان اور انکی اہلیہ ماہین علی کو سزا دی گئی جس کیخلاف اپیل دائر کی تو اسلام آباد ہائیکورٹ نے سزا میں اضافہ کرتے ہوئے تین برس قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی تھی۔
اس وقت عدالت نے مجرمان کو گھریلو ملازمہ پر تشدد اور 12 سال سے کم عمر بچے سے جبری مشقت کروانے کے جرم میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 328 کے تحت سزا سنائی۔
اس قانون میں زیادہ سے زیادہ سزا سات سال ہے۔طیبہ تشدد کیس میں سپریم کورٹ نے نوٹس بھی لیا تھا۔