بنگلہ دیش میں طلبہ کا پھر احتجاج، چیف جسٹس، گورنر مرکزی بینک مستعفی ہو گئے
Share your love
ڈھاکا: بنگلہ دیش میں طلبہ نے ایک دفعہ پھر احتجاج شروع کردیا اور اس کے نتیجے میں حسینہ واجد کے دور میں تعینات چیف جسٹس عبیدالحسن اور مرکزی بینک کے گورنر عبدالرؤف تعلقدار نے استعفیٰ دے دیا۔
غیرملکی خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کی وزارت قانون کے مشیر آصف نذرل نے فیس بک پر ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ چیف جسٹس عبیدالحسن نے استعفیٰ دے دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ طلبہ کی جانب سے چیف جسٹس کو استعفیٰ نہ دینے کی صورت میں سنگین نتائج کی انتباہ کے بعد انہوں نے استعفیٰ دے دیا ہے۔
عبوری حکومت میں وزارت قانون کے مشیر آصف نذرل نے مظاہرین کو پرامن رہنے پر زور دیا اور کہا کہ سرکاری املاک کو نقصان نہ پہنچائیں۔
وزارت خزانہ کے مشیر صلیح الدین احمد نے صحافیوں کو بتایا کہ بنگلہ دیش بینک کے گورنر عبدالرؤف تعلقدار نے بھی استعفیٰ دے دیا ہے لیکن ان کے عہدے کی اہمیت کے پیش نظر ان کا استعفیٰ منظور نہیں کیا گیا ہے۔
قبل ازیں سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے دور میں تعینات 4 ڈپٹی گورنز نے بھی استعفیٰ دیا تھا کیونکہ بینک کے 300 سے 400 عہدیداروں نے احتجاج کرکے انہیں استعفے پر مجبور کردیا تھا۔
بینک کے افسران کا مؤقف تھا کہ اعلیٰ عہدیدار کرپشن میں ملوث ہیں۔
ادھر ڈھاکا یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اے ایس ایم مقصود کمال نے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔
ڈھاکا ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق شاہ جلال یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر پروفیسر فرید الدین احمد نے بھی اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
ڈھاکا یونیورسٹی گزشتہ ماہ شروع ملک کے کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع ہونے والے طلبہ احتجاج کا مرکز تھی اور یہ احتجاج اس قدر مؤثر تھا کہ ایک مہینے میں بنگلہ دیش کی مضبوط تصور کی جانے والی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو استعفیٰ دینا پڑا اور ملک سے باہر چلی گئیں۔
شیخ حسینہ واجد استعفے کے بعد بھارت روانہ ہوگئی تھیں جبکہ احتجاج کے دوران طلبہ سمیت 300 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے تھے اور ان کے 15 سالہ اقتدار کا سورج غروب ہوگیا تھا۔
بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی حکومت کے خاتمے کے بعد پولیس کا نیا سربراہ بھی مقرر کیا گیا، اس کے علاوہ خفیہ ایجنسی کا سربراہ سمیت فوج کے اعلیٰ عہدیداروں کو بھی تبدیل کردیا گیا تھا۔