فوجی عدالتوں میں کیس،وفاقی حکومت نے ملٹری کورٹ فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دینے کیلئے ایک ماہ کا وقت مانگ لیا
Share your love
اسلام آباد:سپریم کورٹ میں عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف کیس،وفاقی حکومت نے ملٹری کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دینے کیلئے ایک ماہ کا وقت مانگ لیا، چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ کی آزادی کو نظام عدل میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
ملٹری کورٹس کیس میں وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا سامنا کرنے والے عام شہریوں کو ہائیکورٹ میں اپیل کا حق دینے کیلئے رضامندی ظاہر کردی،
اٹارنی جنرل نے بتایا فوجی عدالتوں کے فیصلوں میں تفصیلی وجوہات دی جائیں گی، مرضی کا وکیل دیا جائے گا،ہم زیر حراست افراد کو اپیل کا حق دینے کیلئے آرڈیننس لارہے ہیں، ایک ماہ کا وقت چاہیے۔
جسٹس منیب اختر بولےایک ماہ کا وقت تو بہت زیادہ ہے،موجودہ قومی اسمبلی کی مدت تو 12 اگست کو ختم ہورہی ہے. اٹارنی جنرل نے کہا ایک ماہ کا وقت اس لیے چاہیے تاکہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو جیسے دیگر اہم حساس مقدمات متاثر نہ ہوں۔
دوران سماعت ایڈووکیٹ اعتزاز احسن نے کہا کہ حکومت جان بوجھ کر تاخیر کرہی ہے تاکہ یہ چھ رکنی بینچ فیصلہ نہ کرسکے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا اگر اٹارنی جنرل کی کرائی گئی یقین دہانیوں پر عمل نا ہوا تو متعلقہ شخص کو سپریم کورٹ میں طلب کریں گے۔
دوران سماعت ایک درخواست گزار وکیل نے کہا کہ زیر حراست افراد کی ویڈیوز کو ریکارڈ کرکے پبلک کیا جارہا ہے،فوجی عدالتوں کے ٹرائل کو معطل کیا جائے۔
چیف جسٹس پاکستان نے وکیل درخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا ابھی ٹرائل شروع ہی نہیں ہوا، کیا آپکے مؤکل کی اہل خانہ سے ملاقات نہیں ہوئی؟. وکیل درخواست گزار نے جواب دیا عدالتی حکم نامے کے بعد زیر حراست فرد کی اسکے والد سے ملاقات کرائی گئی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ملاقات ہوگئی بس کافی ہے اب ریلکس کریں،ہم ججز آپس میں مشاورت کرکے آئندہ تاریخ کا اعلان کریں گے،مشاورتی عمل میں حکومت کی جانب سے ایک ماہ کی مہلت مانگنے کا جائزہ لے کر حکم نامہ جاری کریں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ہم کسی ریٹائرڈ جج کو 102 افراد سے ملاقات کے لیے فوکل پرسن مقرر کر سکتے ہیں. اٹارنی جنرل نے بتایا اس حوالے سے میں اپ سے ان چیمبر بتاونگا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم چاہتے ہیں زیر حراست افراد کو بنیادی حقوق ملنے چاہیے،زیر حراست افراد کو اہل خانہ سے ملاقات کی اجازت ہونی چائیے۔
ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ نے کہا کہ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے ایسے لگ رہا ہے یہ ضیا الحق کا دور ہے . چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ موجودہ دور کو ضیا الحق کے دور سے موازنہ نہ کریں،اگر ملک میں مارشل لا لگا تو ہم مداخلت کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا اٹارنی جنرل کی جانب سے ایک ماہ کہ مہلت طلب کرنے پر بینچ مشاورت کرے گا،آئندہ تاریخ مشاورت کے بعد اپنے حکمنامہ میں شامل کردیں گے۔