فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف کیس پر فیصلہ محفوظ

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف کیس پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔

سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجربنچ سماعت کررہا ہے ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی ، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی بنچ میں شامل ہیں۔

سماعت کے آغاز میں وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت میں یقین دہانی کروانے کے باوجود فوجی عدالتوں نے سویلین کا ٹرائل شروع کر دیا ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہمیں اس بارے میں معلوم ہے، ہم پہلے اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل عثمان منصور نے عدالت کو بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تمام تقاضے پورے ہوں گے، ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں بھی میں اپیلیں آئیں گی، دلائل میں مختلف عدالتی فیصلوں کے مندرجات کا حوالہ بھی دوں گا، ممنوعہ علاقوں اور عمارات پر حملہ بھی ملٹری عدالتوں میں جا سکتا ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ دہشتگردوں کا ٹرائل کرنے کے لیے آئینی ترمیم ضروری تھی عام شہریوں کے لیے نہیں؟ میں آپ کے دلائل کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

اٹارنی جنرل نے کہاکہ آرمڈ فورسز سے ملزمان کا ڈائریکٹ تعلق ہو تو کسی ترمیم کی ضرورت نہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ ارمڈ فورسز کے اندر ڈسپلن کی بات کرتا ہے ، اس دوران جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ آپ آرمی ایکٹ کا دیباچہ پڑھیں۔

جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ قانون پڑھیں تو واضح ہوتا ہے یہ تو فورسز کے اندر کے لئے ہوتا ہے، آپ اس کا سویلین سے تعلق کیسے دکھائیں گے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی ایکٹ افسران کو اپنے فرائض سرانجام دینے کا بھی کہتا ہے، کسی کو اپنی ڈیوٹی ادا کرنے سے روکنا بھی اس قانون میں جرم بن جاتا ہے۔

جسٹس اعجاز االااحسن نے کہاکہ لیکن قانون مسلح کے اندر موجود افراد کی بھی بات کرتا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ بات فورسز میں ڈسپلن کی حد تک ہو تو یہ قانون صرف مسلح افواج کے اندر کی بات کرتا ہے، جب ڈیوٹی سے روکا جائے تو پھر دیگر افراد بھی اسی قانون میں آتے ہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آپ کی تشریح جان لی جائے تو آپ کسی پر بھی یہ قانون لاگو کردیں گے؟ ایسی صورت میں بنیادی حقوق کا کیا ہوگا؟

اس پراٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی ایکٹ وقتی طور پر آرمڈ فورسز کے ساتھ کام کرنے والوں کی بھی بات کرتا ہے، جس پر جسٹس اعجاز الحسن نے کہاکہ یہ معاملہ صرف سروس سے متعلق ہے،اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ آرمڈ فورسز ممبران کو ڈیوٹی سے روکنے والے عام شہری بھی ہوسکتے ہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آئین کہتا ہے بنیادی حقوق کے خلاف کوئی قانون نہیں بنے گا، آئین اور قانون فرائض کی ادائیگی کے پابند آرمڈ فورسز کو کرتا ہے، قانون انہیں کہتا ہے کہ آپ فرائض ادا نہ کر سکیں تو آئین کے بنیادی حقوق کا حصول آپ پر نہیں لگے گا، آپ اس بات کو دوسری طرف لیکر جارہے ہیں، آپ کہہ رہے ہیں جو انہیں ڈسٹرب کرے ان کے لئے قانون ہے،

جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمڈ فورسز سے تعلق کی اصطلاح بھی موجود ہے، میں لیاقت حسین کیس سے بھی دلائل دینا چاہوں گا ، عدالت کو آگاہ کروں گا کہ 2015 میں آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتیں کیوں بنائی تھیں، عدالت کو یہ بھی بتاوٴں گا کہ اس وقت فوجی عدالتوں کیلئے آئینی ترمیم کیوں ضروری نہیں،

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ماضی کی فوجی عدالتوں میں جن کا ٹرائل ہوا وہ کون تھے؟ کیا 2015 کے ملزمان عام شہری تھے، غیرملکی یا دہشتگرد؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزمان میں ملکی و غیر ملکی دونوں ہی شامل تھے، سال 2015 میں جن کا ٹرائل ہوا ان میں دہشتگردوں کے سہولت کار بھی شامل تھے، اٹارنی جنرل نے ایف بی علی کیس کا بھی حوالہ دیا۔

اس سے قبل فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کی آخری سماعت 3 اگست کو ہوئی تھی ، فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کی آخری سماعت سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی بنچ نے کی تھی۔

گزشتہ سماعت پر اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کروائی تھی کہ عدالت کو آگاہ کئے بغیر ٹرائل شروع نہیں ہوگا ، اٹارنی جنرل کی یقین دہانی کو سپریم کورٹ نے 3 اگست کی سماعت کے تحریری حکمنامہ میں شامل کیا تھا۔

وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل شروع ہونے کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا دی ہے جبکہ 9 ملزمان نے تحریری درخواستیں دائر کردی ہیں۔

خیال رہے کہ سانحہ 9 مئی سے متعلق فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل شروع ہوگیا اور وفاقی حکومت نے اس حوالے سے سپریم کورٹ کو آگاہ کردیا ہے۔