Enter your email address below and subscribe to our newsletter

‏نگران وزیر صحت کی اہلیہ کی فارما کمپنی کی تیار کردہ دوا غیرمعیاری قرار،مارکیٹ سے اٹھانے کا حکم 

Share your love

لاہور : پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ نے پنجاب کے وزیر صحت پروفیسر جاوید اکرم کی اہلیہ کی ملکیت والی کمپنی کی تیار کردہ دوائیوں کی ایک کھیپ کو “غیر معیاری اور ملاوٹ شدہ” قرار دیتے ہوئے اسے مارکیٹ سے واپس منگوانے کی ہدایات جاری کی ہیں اور وارننگ دی ہے کہ یہ دوائی لوگوں کی صحت کے لیے “خطرہ” بن سکتی ہے۔ 

انگریزی اخبار “ڈان” میں شائع سینئر صحافی آصف چودھری کی رپورٹ کے مطابق محکمہ صحت نے یہ کارروائی پنجاب ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کی رپورٹ کی روشنی میں شروع کی گئی تھی جس میں ایم ایس ڈان ویلی فارماسیوٹیکل (پرائیویٹ) لمیٹڈ کی تیار کردہ دوائی کے بیچ میں ایک اور دوا (پیراسٹامول) کے آثار ملے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ معاملہ اس وقت منظر عام پر آیا جب پتہ چلا کہ “غیر معیاری” دوا بنانے والی کمپنی پنجاب کے نگراں وزیر صحت کی اہلیہ شہلا جاوید کی ملکیت ہے۔ 

فیصل آباد میں پنجاب ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کی طرف سے یہ اطلاع دی گئی ہے کہ دوا، ریسوٹن [ٹیبلیٹس] ملاوٹ شدہ اور غیر معیاری پائی گئی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ  دوائی کے  ایک مخصوص بیچ کو تقسیم کیا گیا تھا جس میں ملاوٹ پائی گئی۔ ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ مارکیٹ سے فیلڈ سٹاف کی طرف سے تیار کردہ اور ڈی ٹی ایل کو بھیجی گئی دوائیوں کا ایک نمونہ جب تجزیہ کیا گیا تو اس میں ملاوٹ پائی گئی۔

فیصل آباد ڈی ٹی ایل کی رپورٹ کے بعد ڈائریکٹوریٹ ہیلتھ سروسز پنجاب نے یہ معاملہ سیکرٹری پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ علی جان کے نوٹس میں لایا جنہوں نے متعلقہ افسران کو کمپنی کے خلاف کارروائی شروع کرنے کا حکم دیا، انہوں نے مزید بتایا سیکرٹری کو بھی آگاہ کیا گیا تھا کہ مینوفیکچرنگ کمپنی نگران وزیر کی اہلیہ کی ملکیت ہے۔

سیکرٹری صحت کے احکامات کے بعد صوبائی فارماکو ویجیلنس سنٹر نے “غیر معیاری” دوائی کے بارے میں پبلک الرٹ جاری کیا اور فیلڈ سٹاف کو ہدایات جاری کیں کہ وہ ملک بھر سے اس کی مخصوص کھیپ واپس منگوا لیں۔

نوٹس میں کہا گیا ہے کہ”تمام فارمیسیز، میڈیکل اسٹورز، تھوک فروشوں، تقسیم کاروں اور ہسپتالوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ مخصوص بیچ کی فراہمی کو فوری طور پر روک دیں اور متعلقہ علاقے کے ڈرگ انسپکٹرز کو ان کی موجودہ انوینٹری اور مذکورہ بیچ کے استعمال کے ریکارڈ کے بارے میں اپ ڈیٹ کریں ۔ 

نوٹس میں عوام کو انتباہ کیا گیا ہے کہ تمام صارفین (مریض، صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد) کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ مذکورہ بیچ کا استعمال فوری طور پر بند کر دیں کیونکہ وہ صحت کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ 

ایم ایس ڈان ویلی فارماسیوٹیکل (پرائیویٹ) لمیٹڈ کی چیف ایگزیکٹیو آفیسر شہلا جاوید نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کمپنی کی الرجی کے علاج کے لیے بننے والی دوائیوں میں مبینہ ملاوٹ کے معاملے کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے، نشانات، جیسا کہ محکمہ کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے، پیراسیٹامول دوا کے تھے جو کہ بذات خود ایک محفوظ دوا تھی۔ ان کی کمپنی نے پہلے ہی اس دوا کے مذکورہ بیچ کو مارکیٹ سے رضاکارانہ طور پر واپس منگوانے کی ہدایات جاری کر دی تھیں۔ 
محترمہ جاوید کہتی ہیں کہ پنجاب کے ڈرگ کنٹرول ڈپارٹمنٹ کی جانب سے پیراسیٹامول کے نشانات کے آلودہ ہونے کی مبینہ طور پر غیر مصدقہ اطلاعات تھیں جن کی کمپنی تردید کرتی ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ پوری دنیا میں ہر سال 1,000 سے زیادہ ادویات رضاکارانہ طور پر واپس منگوائی جاتی ہیں، جس سے صنعت کے بہتر ضابطے کے لیے ایک گنجائش پیدا ہوتی ہے۔

محترمہ جاوید کہتی ہیں کہ بدقسمتی سے، یہ عمل پاکستان میں غیر معمولی رہا ہے اور ان کی کمپنی نے جذبہ خیر سگالی کے طور پر مارکیٹ سے دوائی واپس منگوانے کی پہل کی ۔ 

انہوں نے کہا کہ چند ماہ قبل مذکورہ بیچ کے تحت کل 50,000 یونٹس/پیک (ہر پیکٹ میں 10 گولیاں) تیار کی گئیں اور مارکیٹ میں جاری کی گئیں۔

Share your love

Stay informed and not overwhelmed, subscribe now!