بلوچستان میں دہشت گردی کے لیے اڈے بنانے کا منصوبہ ناکام ، کالعدم تنظیم کے 2 کمانڈرز گرفتار،اہم انکشافات
Share your love
کوئٹہ: بلوچستان میں دہشت گردی کے لیے اڈے بنانے کا منصوبہ ناکام بناتے ہوئے کالعدم تنظیم کے 2 کمانڈرز کو گرفتار کرلیا گیا، جس میں کالعدم ٹی ٹی پی کی دفاعی شوریٰ کا کمانڈر بھی شامل ہے، جس نے اپنے بیان میں بی ایل اے اور را کے ناپاک عزائم کا انکشاف کیا ہے۔
وزیر داخلہ بلوچستان میر ضیا اللہ لانگو نے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ دہشت گردی کا ایک اہم نیٹ ورک پکڑا ہے، جس میں کالعدم تنظیم کے 2 اہم کمانڈرز کو گرفتار کیا گیا ہے، جس میں کمانڈر نصر اللہ عرف مولوی منصور اور کمانڈر ادریس عرف ارشاد شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کالعدم تنظیم کے دہشت گرد نصر اللہ کو ایک مشکل آپریشن کے بعد گرفتار کیا گیا ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشن پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ دہشت گرد کارروائیوں کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔ بھارت دہشت گردوں کی مالی مدد کرتا ہے۔
صوبائی وزیر داخلہ نے کہا کہ نوجوان دشمن کے عزائم کو پہچانیں ان کی باتوں میں نہ آئیں۔ گمراہ لوگ اپنے ملک صوبے اور لوگوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جو نوجوان باہر بیٹھے ہوئے ہیں انہیں ورغلایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں یا دنیا کو کسی شک کی گنجائش نہیں رہنی چاہیے کہ ان تمام شورش کے پیچھے عالمی سطح کے دہشت گرد بھارت کا ہاتھ ہے، جس کی کارروائیوں سے امریکا اور کینیڈا تک میں لوگ محفوظ نہیں ہیں۔ پاکستان میں تو 20 سال سے یہ افغانستان میں بیٹھ کر صرف پیسے کا استعمال کر کے دہشت گردی کروا رہا ہے۔
پریس کانفرنس سے قبل گرفتار دہشت گرد کا ویڈیو بیان چلایا گیا، جس میں اس نے بتایا کہ میرا نام نصر اللہ عرف مولوی منصور ہے، میرا تعلق تحصیل ساراروغا ضلع جنوبی وزیرستان کے گاؤں واچاخوڑا سے ہے۔ میرا تعلق محسود قبیلے سے ہے اور میری عمر 44 سال ہے۔
ٹی ٹی پی کے وجود میں آنے سے پہلے میں 2005ء سے بیت اللہ محسود کے پلیٹ فارم سے تخریبی کارروائیوں میں حصہ لیتا رہا ہوں۔ جب 2007ء میں ٹی ٹی پی وجود میں آئی، تو میں اس میں شامل ہوگیا۔
اس طرح میں گزشتہ 16 سال سے تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ رہا ہوں، اس دوران میں نے دہشت گردی کی کئی کارروائیوں میں براہ راست حصہ لیا اور آپریشن ضرب عضب کے دوران افغانستان فرار ہوگیا اور وہاں پر پکتیکا میں رہنے لگا۔
ان 16 سالوں کے دوران میں نے پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے خلاف عملی طور پر دہشت گردانہ کارروائیوں میں حصہ لیا۔ میں نے پاک فوج کی مختلف چیک پوسٹوں پر شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، ڈی آئی خان اور پاک افغان بارڈر پر حملوں کی کارروائیوں میں حصہ لیا۔
ان حملوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوام کا بہت جانی و مالی نقصان ہوا۔ میں ٹی ٹی پی کے اندر مختلف عہدوں پر کام کرتا رہا ہوں۔ اس کے بعد 2023 سے اب تک ٹی ٹی پی کے دفاعی کمیشن میں امیر کے طور پر کام کرتا رہا ہوں۔
میری ذمے داری ٹی ٹی پی کے لیے تمام تر عسکری، مالی اور دیگر امور کو مرکزی طور پر کنٹرول کرنا تھا۔میں پاکستان میں بھیجی جانے والی تشکیلات میں ہتھیار اور بارود کے علاوہ طلب اور رسد کو بھی کنٹرول کرتا تھا۔
جنوری 2024ء میں ٹی ٹی پی کے امیر مفتی نور علی محسود اور وزیر دفاع مفتی مزاحم نے مجھے قندھار افغانستان بلایا اور مجھے بتایا کہ ایک خاص مقصد کے لیے پاکستان کے صوبہ بلوچستان جانا ہے اور اس میں ہمیں اسپن بولدسے ہوتے ہوئے بی ایل اے کی رہنمائی اور مدد سے بلوچستان کے جنوب سے بارڈر کراس کرنا تھا۔
یہ پلان مفتی صاحب نے بی ایل اے کے مجید بریگیڈ کے کمانڈر بشیر زیب کے ساتھ مل کر بنایا۔ اس سارے کام کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی را کا ہاتھ تھا، جو چاہتی تھی کہ بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کا الحاق کرایا جائے اور ٹی ٹی پی کے لیے بلوچستان کے علاقے خضدار میں مراکز قائم کیے جائیں۔ اس کے علاوہ ان کا مقصد بلوچستان کے مختلف علاقوں میں محفوظ پناہ گاہیں بنانا تھا اور وہاں سے دہشت گردی کی کارروائیاں کرنا تھا، جس سے بلوچستان میں حالات خراب کیے جا سکیں۔
مزید برآں مفتی نور علی محسود اور مفتی مزاحم نے بتایا کہ بلوچستان میں پاؤں جمانے کے پیچھے ہمارے اور ہمارے دوستوں یعنی را کے 3 مقاصد ہیں، جس میں سب سے پہلے سی پیک کو سبوتاژ کرنا، جس میں چینی باشندوں کو ہدف بنانا شامل ہے۔ دوسرے نمبر پر لوگوں کو اغوا کرکے جبری گمشدگیوں کے معاملے کو ہوا دینا تاکہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بدنام کیا جا سکے اور تیسرے نمبر پر بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرکے لوگوں میں بے چینی اور مایوسی پھیلانا تھا۔
مجھے سختی سے حکم دیا گیا کہ بی ایل اے والوں کے ساتھ کوئی دینی معاملات پر بات چیت نہیں کرنی۔ مفتی صاحب نے کہا کہ بی ایل اے کا دین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ باتیں سن کر جب میں نے بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کے غیر فطری اتحاد کے بارے میں سوال اٹھایا تو مولوی نور ولی غصے میں آ گئے لیکن مفتی مزاحم نے معاملہ رفع دفع کروا دیا۔
بی ایل اے کے ایک رہبر نے ہمیں رات کے اندھیرے میں مشکل علاقے سے بارڈر کراس کروایا اور بی ایل اے کے ایک اور رہبر کے حوالے کردیا۔ سفر کے دوران وہ رہبر بار بار ادھر ادھر دیکھتا اور فون پر کسی سے بات کرتا تھا۔ مجھے اور ساتھیوں کو اس پر شک ہوا ۔ رہبر کے ساتھ ہم نے تھوڑا ہی سفر قلات کی طرف طے کیا کہ فوج کی ایک پیٹرولنگ پارٹی کی نظر میں آ گئے۔
ہمارے خدشات کے عین مطابق بی ایل اے کا رہبر ہمیں وہیں چھوڑ کر بھاگ نکلا۔ ہم نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن جلد ہی ہمیں گرفتار کرلیا گیا۔بی ایل اے نے منصوبہ بندی کے تحت ہمیں دھوکا دیا، تفتیش کے دوران ہم نے جو بتایا وہ سب سچ بتایا۔ آج میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ٹی ٹی پی کا سارا نظام خصوصاً مالی نظام کے پس پشت ہندوستان ہے۔
مفتی نور ولی محسود انڈین خفیہ ادارے را سے بھارتی سفارت خانے کابل میں جاکر ملتا ہے، جس کی مکمل پشت پناہی موجودہ افغان حکومت کررہی ہے اور موجودہ افغان حکومت ٹی ٹی پی کو مالی مدد ٹریننگ اور افرادی قوت بھی فراہم کرتی ہے۔
میں مفتی نور ولی سے سوال کرتا ہوں کہ اس کے زیر استعمال بم پروف گاڑیاں اور اس کے بچوں اور فیملی کے زیر استعمال گاڑیاں کہاں سے آئیں؟۔ وہ دوسروں کے بچوں سے خودکش حملے کروا کر جنت میں پہنچانے کا فتویٰ دیتا ہے تو یہی راستہ اپنے بچوں میں سے کسی ایک کو بھی جنت میں بھیجنے کے لیے کیوں استعمال نہیں کرتا؟۔
میں خود محسود ہوں اور میں تمام قبائل کے عمائدین کی توجہ اس بات پر مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ وہ بھی مفتی نور ولی سے سوال کریں کہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں صرف دوسرے قبائل کے بچے ہی کیوں مارے جا رہے ہیں؟۔ مجھے یقین ہے کہ ٹی ٹی پی کی قیادت بشمول مفتی نور ولی اس کا جواب نہیں دے پائیں گے۔
لیکن آج میں اس بات کا جواب سب کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ ٹی ٹی پی کے لیے تمام عہدے خصوصاً مالی معاملات کے لیے صرف اور صرف واحد شرط محسود ہونا ہے جب کہ دوسرے قبائل کے بچوں کو ناحق مروا کر پاکستان کے دشمن گروہوں کے مذموم مقاصد کو پورا کیا جا رہا ہے۔
مولوی نور ولی سمیت ٹی ٹی پی کی تمام قیادت افغانستان میں موجود ہے۔ افغان طالبان حکومت نہ صرف ٹی ٹی پی کی پشت پناہی کررہی ہے بلکہ انہیں مکمل سہولت کاری فراہم کررہی ہے۔ ٹی ٹی پی کے تمام کمانڈر افغانستان میں کھلے عام گھوم رہے ہیں۔ بی ایل اے خصوصاً مجید بریگیڈ کا کمانڈر بشیر زیب بھی افغانستان میں رہ رہا ہے یہ سب آپس میں ملتے رہتے ہیں اور ان ملاقاتوں کے پیچھے را کا پورا ہاتھ ہے۔
میں اپنی گزشتہ زندگی اور اپنی ٹی ٹی پی سے وابستگی پر نادم ہوں اور اس کے لیے نہ صرف اللہ اور ان تمام لوگوں سے معافی کا طلب گار ہوں جن کو میرے نام نہاد جہاد سے نقصان پہنچا۔