جسٹس اعجاز الاحسن کے خط پرچیف جسٹس آف پاکستانکا جوابی خط منظر عام پر آگیا
Share your love
اسلام آباد:جسٹس اعجاز الاحسن کا سترہ ستمبر کو لکھے گئے خط کا معاملہ، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کا جوابی خط منظر عام پر آگیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس اعجاز الاحسن کے لکھے گئے خط پر جوابی خط میں کہا ہے کہ آپ کا خط وصول ہوا، مجھے بہت مایوسی ہوئی،آپ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی ورکنگ پر تحفظات کا اظہار کیا۔
جوابی خط میں چیف جسٹس نے کہا کہ آپکا الزام ہے کہ بنچز کی تشکیل سے قبل مشاورت نہیں کی گئی،میرے دروازے سپریم کورٹ کے تمام ججز کیلئے کھلے ہیں، اپ نے اپنے تحفظات کیلئے نہ تو مجھ سے انٹر کام کے زریعے بات کی نہ مجھ سے رابطہ کیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے مزید کہا کہ خط موصول ہونے پر میں نے فوری اپ سے انٹر کام پر رابطہ کیا لیکن جواب نہ ملا،میری ہدایت پر سٹاف نے آپ کے آفس سے رابطہ کیا تو بتایا گیا آپ جمعہ کے روز لاہور کیلئے نکل چکے ہیں،آپ ورکنگ ڈے پورا کیے بغیر لاہور گئے،ہمیں چھ دن کام کرنے کی تنخواہ ملتی ہے،ہمیں چار دن اور ایک آدھے دن کی تنخواہ نہیں ملتی،ایک جج کی اولین زمہ داری عدالتی امور کی انجام دہی ہے۔
چیف جسٹس نے خط میں مزید کہا کہ میٹنگ جمعہ کے دن شیڈول کی گئی،آپ کی درخواست پر کمیٹی میٹنگ جمعہ کے بجائے جمعرات کو دوبارہ شیڈول کی گئی،اب مجھے لگ رہا ہے کمیٹی میٹنگ کو ری شیڈول کرنا میری غلطی تھی،اگر مشاورت کے عمل کو نہ کرنا تو کیا حکم امتناعی کے باوجود اپ اور جسٹس سردار طارق سے مشاورت اپنے اوپر لازم کرتا۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے مزید کہا کہ آپکو یاد دلاتا چلوں میں جب اٹھارہ ستمبر کو چیف جسٹس پاکستان بنا تو پہلے آرڈر میں آپ سے اور جسٹس سردار طارق مسعود سے مشاورت کی،آپکے غیر ضروری الزامات کے جوابات دینے سے قبل یاد دلانا چاہتا ہوں کمیٹی کا پہلا اجلاس آپکی عدم دستیابی کے سبب تاخیر کا شکار ہوئی۔
چیف جسٹس نے خط میں مزید کہا کہ نو نومبر کو اس لیے آپ کی وجہ سے دوسرا کمیٹی اجلاس نہ ہو سکا کیونکہ آپ ہانک کانگ میں ایک کانفرنس میں شریک تھے،سولہ نومبر والی کمیٹی میٹنگ آپ کے کہنے پر ملتوی ہوئی کیونکہ آپ کے ساتھی بیمار تھے،میری وجہ سے آج تک کمیٹی اجلاس ملتوی نہیں ہوا۔
چیف آف پاکستان نے خط میں مزید کہا کہ سردیوں کی چھٹیوں می میں دو بنچز تشکیل دیے گئے،میں آپ (جسٹس اعجاز الاحسن) کو یاد دلاتا چلوں ایک بنچ میں آپکے ساتھ جسٹس مظاہر تھے،آپ نے کہا جسٹس مظاہر نقوی کا کیس کونسل میں ہے میں انکے ساتھ بنچ میں نہیں بیٹھنا چاہتا۔
خط میں چیف جسٹس نے کہا کہ بنچز کی تشکیل سے عیاں ہے تمام ججز کیساتھ مساوی برتاؤ کیا جا رہا ہے،آپکے الزامات حقائق اور ریکارڈ کے منافی ہیں،اگر آپکی تجاویز ہیں تو تحریری صورت میں دیں تاکہ کمیٹی اجلاس بلا کر انکا جائزہ لیا جاسکے.