سپریم کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی قرار دے دی، فوری رہا کرنے کا حکم
Share your love
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے عمران خان کی القادر ٹرسٹ میں نیب کے ہاتھوں گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے عمران خان کو فوری رہا کرنے اور اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کا حکم دیا جبکہ ہائیکورٹ کو حکم دیا کہ وہ کیس کی دوبارہ سماعت کر کے فیصلہ جاری کرے۔
فواد چوہدری کی جانب سے دائر درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ نے سماعت کی اور چیئرمین پی ٹی آئی کی نیب کے ہاتھوں القادر ٹرسٹ میں گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے دیا۔
سپریم کورٹ نے عمران خان کو فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کو کیس کی سماعت صبح گیارہ بجے مقرر کرکے فیصلہ جاری کرنے کی ہدایت بھی کی جبکہ عمران خان کو بھی متعلقہ عدالت سے رجوع کرنے کی ہدایت کی۔
عدالت نے عمران خان کو پیش کرنے کے لیے ساڑھے چار بجے کا وقت دیا تھا تاہم پی ٹی آئی کے چیئرمین کو ایک گھنٹے سے زائد تاخیر کے بعد عدالت میں پہنچایا گیا۔
اسلام آباد پولیس نے سخت سیکیورٹی میں عمران خان کو لے کر عدالت پہنچی اور اُن کی گاڑی کو ججز گیٹ سے داخل کروایا، چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ پولیس، رینجرز، ایلیٹ کمانڈوز کی 13 گاڑیاں تھی۔
عمران خان نے پیشی کے موقع پر سیاہ رنگ کا چشمہ لگایا ہوا تھا، احاطہ عدالت میں داخل ہونے کے بعد وہ خود پیدل چل کر کورٹ روم پہنچے اور صحافیوں کی جانب سے دوران حراست تشدد کے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔
عمران خان کے کمرہ عدالت میں داخل ہوتے ہی چیف جسٹس نے ’ویلکم خان صاحب، آپ کو دیکھ کر اچھا لگا‘ ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو کچھ خدشات ہیں، آپ کوپرتشدد مظاہروں کا علم ہوا ہوگا، یہ شائد سیاسی عمل کا حصہ ہے لیکن عمل بحال کرنا ہوگا، امن بحال ہوگا تو آئینی مشینری کام کر سکے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کی خواہش ہے کہ آپ پرتشدد مظاہروں کو مذمت کریں۔
سپریم کورٹ نے عمران خان کو جمعے کی صبح گیارہ بجے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہونے کا حکم دیا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ’ذوالفقار علی بھٹو کو بیرون ملک جانے کی پُرکشش پیش کش ہوئی جسے انہوں نے مسترد کیا، آصف زرداری نے بھی پر تشدد مظاہرے ختم کروائے، بے نظیر بھٹو کی گرفتاری کے بعد ملک میں پُرتشدد مظاہرے نہیں ہوئے۔
عمران خان نے کہا کہ گرفتاری کے بعد مجھ سے میرا موبائل لے لیا تھا جس کے بعد مجھے کسی بھی واقعے کا کوئی علم نہیں تھا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بندوبست کر رہے ہیں آپ کوساری خبریں ملیں گی، ہم فیصلہ واپس لے رہے ہیں، فکر نہ کریں، بس کسی سرکاری یا نجی املاک کو نقصان نہ پہنچے کیونکہ ہم غریب ملک ہیں،نقصان سب کا ہوتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ نے سپورٹرز سے کہنا ہے کہ پر امن رہنا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ امن ہوتوگا ہی تو ریاست چل سکے گی۔ یہ ذمہ داری ہر سیاستدان کی ہے کہ وہ اپنے کارکنان کو پُرامن رہنے کی تلقین کرے، الزام ہے کہ آپ کے ورکرز نے سڑکوں پر آکر یہ ماحول بنایا، آپ اپنا مذمتی بیان عدالت میں ہی دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ آپ نے عدالت میں سرینڈر کیا تھا، سرینڈرکرنے والے ہر شہری کا حق ہے اسے انصاف تک رسائی ملے، وارنٹ قانونی تھے یا نہیں، گرفتاری درست نہیں، اب سارا عمل واپس ہو گا جہاں آپ بائیو میٹرک کروا رہے تھے اور ہائیکورٹ جو بھی حکم دے گی آپ اس کے پابند ہوں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان آج سپریم کورٹ کے مہمان ہوں گے، سیکیورٹی کے مدنظر عمران خان کو آج پولیس لائنز گیسٹ ہاؤس میں رکھا جائے گا جہاں وہ جن شخصیات سے چاہیں مل سکتے ہیں، عمران خان کو کل صبح گیارہ بجے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’عمران خان چاہیں تو ان کے ساتھ دوست یا فیملی ممبران رات کو قیام بھی کر سکتے ہیں، عدالتوں کی حدود سے کسی کو بھی گرفتار کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، عدالتوں کی حدود سے کسی کو بھی گرفتار کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، سیکیورٹی کے افراد رجسٹرار کی اجازت سے ہی عدالتوں میں داخل ہو سکیں گے، عمران خان کی خواہش کے برعکس ملنے والوں کو عمران خان سے اجازت لینا ہوگی۔
چیف جسٹس نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ممکن ہے آپ مخالفین کو پسند نہ کرتے ہوں مگر ان سے بات کریں، 23 کروڑ لوگ انتظار کر رہے ہیں کہ ہمارے سیاستدان ملک کی کشتی کو آگے بڑھائیں، آپ اپنے مخالفین سے ڈائیلاگ کریں، اس سے معاشرے میں اطمینان آئے گا، دونوں اطراف کا مؤقف ناقابل حد تک یکسو ہوگیا ہے۔
عمران خان نے دوران سماعت متعدد بار سپریم کورٹ کے ججز سے بنی گالہ کے گھر جانے کی استدعا کی اور کہا کہ مجھے گھر جانے دیا جائے۔ اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ماحول کی ضرورت ہے کہ سکیورٹی کے انتظامات کئے جائیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس سیکیورٹی کے اقدامات کر سکتی ہے۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کی درخواست ضمانت ہائیکورٹ میں زیر التواء تصور ہو گئی۔
سپریم کورٹ کے حکم کے بعد عمران خان کو سخت سیکیورٹی میں پولیس لائنز لایا گیا، جہاں سیکیورٹی کے لیے ایف سی اور پولیس کی بھاری نفری کو تعینات کیا گیا۔
پولیس لائنز میں قیام کے دوران عمران خان کے ساتھ 10 سے بارہ لوگ ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق شبلی فراز بھی رات کو چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ قیام کریں گے۔
پولیس لائنز پہنچانے کے بعد اسلام آباد پولیس کا عمران خان کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھہ سے رابطہ کر کے انہیں عمران خان کا پیغام پہنچایا اور چیئرمین پی ٹی آئی کی خواہش پر انہیں ملاقات کے لیے بلالیا۔
عمران خان نے وکیل کے علاوہ اہلیہ بشری بیگم اور دو ملازمین کے نام بھی دیئے ہیں جو اُن کے ساتھ پولیس لائنز میں رات کو قیام کریں گے۔ وکیل نعیم حیدر نے بتایا کہ کچھ دیر میں عمران خان سے ملاقات کیلئے روانہ ہوں گا۔
عدالت کی جانب سے گرفتاری کو غیر قانونی قرار دینے پر عمران خان کے وکلا اور حامیوں نے عدالت میں شدید نعرے بازی کی جبکہ کارکنان نے بھی آگے بڑھنے کی کوشش کی جس پر پولیس نے پیش قدمی کو روک کر انہیں پیچھے دھکیل دیا۔
علاوہ ازیں زمان پارک، لاہور سمیت پنجاب کے تمام بڑے شہروں، پشاور، مردان، کراچی سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں بھی کارکنان نے جشن منایا اور ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے۔