ہم ماضی میں سویلین کے خلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی مثالوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے،جسٹس اعجاز الاحسن
Share your love
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت جاری ہے ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ہم ماضی میں سویلین کے خلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی مثالوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے، ماضی کی ایسی مثالوں کے الگ حقائق اور الگ وجوہات تھیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے۔شاہ خاور ایڈوکیٹ وزیر داخلہ کی جانب سے آج عدالت میں پیش ہوں گے۔
سماعت سے قبل، صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں اٹارنی جنرل نے سویلینز کے ٹرائل شروع ہونے پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت کسی سویلین کا ٹرائل نہیں چل رہا۔
سماعت شروع ہوئی تو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری روسٹرم پر آئے اور کہا کہ ہم نے بھی اس معاملے پر درخواست دائر کی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپکی درخواست کو نمبر لگ گیا ہے؟ انہوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ سپریم کورٹ بار کی جانب سے بھی درخواست آئی، اچھے دلائل کو ویلکم کیا جائے گا اور جب درخواست کو نمبر لگے گا تب دیکھ لیں گے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں، میرے دلائل صرف سویلین کے ملٹری ٹرائل کے خلاف ہوں گے جبکہ فوجیوں کے خلاف ٹرائل کے معاملے سے میرا کوئی لینا دینا نہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر نے کل پریس کانفرنس میں کہا کہ ٹرائل جاری ہے اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس اٹارنی جنرل کے بیان سے متضاد ہے۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں آج بھی اپنے بیان پر قائم ہوں، ابھی تک کسی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع نہیں ہوا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں آپ کی بات پر یقین ہے۔
وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ پارلیمنٹ بھی آئینی ترمیم کے بغیر سویلین کے ٹرائل کی اجازت نہیں دے سکتا، اکیسویں ترمیم میں یہ اصول طے کر لیا گیا ہے کہ سویلین کے ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم درکار ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اگر اندرونی تعلق کا پہلو ہو تو کیا تب بھی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اندرونی تعلق بارے جنگ کے خطرات دفاع پاکستان کو خطرہ جیسے اصول اکیسویں ترمیم کیس کے فیصلے میں طے شدہ ہیں
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ آئی ایس پی آر کی گزشتہ روز کی پریس کانفرنس کے بعد صورتحال بالکل واضح ہے، کیا اندرونی تعلق جوڑا جا رہا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی جو کارروائی چل رہی ہے وہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ (ٹو ڈی ون) کے تحت ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا اور استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل بتائیں کہ ملزمان کے خلاف کون سا قانون استعمال کیا جا رہا ہے؟
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نو مئی واقعات سے جڑے ملزمان کے خلاف 2ڈی ٹو کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے، 2ڈی ون کے تحت ان ملزمان کا ٹرائل ہوتا ہے جن کا کسی طرح فوج کے ساتھ تعلق ہو۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ ہمارے پاس دستیاب نہیں، ایکٹ کی عدم دستیابی کے باعث ہوا میں باتیں ہو رہی ہیں، لیاقت حسین کا کن دہشت گردوں تعلق تھا، دہشت گردوں کا فوج سے کوئی براہ راست تعلق نہیں تھا
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ہم ماضی میں سویلین کے خلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی مثالوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے، ماضی کی ایسی مثالوں کے الگ حقائق اور الگ وجوہات تھیں۔
وکیل درخواست گزار نے دلائل میں کہا کہ شفاف ٹرائل کی بھی شرائط ہیں۔