نیو یارک: ایک اسپیس کرافٹ اربوں سال پرانے سیارچے کے نمونے زمین پر پہنچانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔
امریکی خلائی ادارے ناسا کا OSIRIS-REx مشن ساڑھے 4 ارب سال پرانے سیارچے بینو کے نمونے لے کر ریاست یوٹاہ کے صحرا میں اترا، یہ تاریخ میں تیسری بار ہے جب نظام شمسی کی کسی خلائی چٹان کا نمونہ حاصل کیا گیا ہے۔
بینو سے حاصل کیا گیا یہ نمونہ حجم کے لحاظ سے اب تک کا سب سے بڑا ہے اور دنیا بھر کے سائنسدان اس پر تحقیق کریں گے، یہ مشن 7 سال پہلے 2016 میں روانہ کیا گیا تھا اور اس نے مجموعی طور پر ایک ارب 20 کروڑ میل کا فاصلہ طے کیا۔
بینو وہ سیارچہ ہے جو کاربن سے بھرپور تصور کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سائنسدان اس کی جانچ پڑتال کرنے کیلئے پرجوش ہیں، اس اسپیس کرافٹ میں متعدد کیمرے نصب کئے گئے تھے جبکہ یہ ایسے میٹریلز سے بھی لیس تھا جو بینو کے تھری ڈی میپس بنانے، درجہ حرارت اور دھاتوں کی موجودگی کے بارے میں جاننے کیلئے ضروری تھے۔
اسپیس کرافٹ سے منسلک روبوٹک ہاتھ کے ذریعے سیارچے کی چٹانوں اور گرد کو جمع کیا گیا اور پھر انہیں کیپسول کے اندر بند کر دیا گیا، یہ اسپیس کرافٹ اکتوبر 2020 میں سیارچے پر اترا تھا اور مئی 2021 میں زمین کی جانب سفر کا آغاز کیا تھا۔
زمین کے قریب پہنچنے پر اسپیس کرافٹ نے نمونے کے کیپسول کو الگ کر کے زمین کے ماحول میں داخل کیا اور وہ کیپسول یوٹاہ کے مغربی صحرا پر اترا، سائنسدانوں کے مطابق اس نمونے میں وائرسز یا بیکٹیریا موجود نہیں اور اس لئے ان کی جانچ پڑتال سے کوئی خطرہ لاحق نہیں۔
خیال رہے کہ بینو کو 1999 میں دریافت کیا گیا تھا جو ہر 6 سال میں ہمارے زمین کے قریب سے گزرتا ہے۔
سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ وقت کے ساتھ یہ سیارچہ زمین کے قریب ہوتا جائے گا اور ستمبر 2182 میں ہو سکتا ہے کہ اتنا قریب آجائے کہ زمین سے ٹکرا جائے۔
مشن میں کامیابی کے بعد OSIRIS-REx اسپیس کرافٹ کا نام OSIRIS-APEX رکھ کر اسے ایک اور سیارچے Apophis کی جانب روانہ کیا جائے گا جو 2029 میں زمین کے قریب آئے گا۔