اسلام آباد: صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے بیان پر سیاستدانوں نے شدید تنقید کا اظہار کرتے ہوئے عارف علوی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا۔
مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ صدر ڈاکٹر عارف علوی کھل کر بات کریں، اگر بلوں سے اختلاف تھا تو انہوں نے کیوں اپنے اعتراضات درج نہ کیے؟ بل ہاں یا ناں کے بغیر واپس بھیجنے کا کیا مقصد تھا؟
عرفان صدیقی نے کہا کہ میڈیا پر خبریں آنے پر بھی وہ 2 دن کیوں چپ رہے؟ ڈاکٹر عارف علوی بولے بھی تو معاملہ اور الجھا دیا، اگر ان کا سٹاف بھی ان کے بس میں نہیں تو مستعفی ہوکر گھر چلے جائیں۔
سابق وفاقی وزیر شیری رحمان نے ڈاکٹر عارف علوی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں ان کی ناک کے نیچے بلز پرکوئی اور دستخط کرتا ہے؟ صدر کی وضاحت ان کے صدارتی منصب سنبھالنے کی اہلیت پر سوالیہ نشان ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہی ہے تو صدرکو اس عہدے سے فوری طور پر مستعفی ہونا چاہیے، اگر آپ کا عملہ آپ کے کہنے میں نہیں تو آپ صدارتی منصب چھوڑ دیں۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت میں وہ صدر ہاؤس کو آرڈیننس فیکٹری کے طور پر چلاتے رہے، کیا اس وقت بھی آرڈیننسز پر کوئی اور دستخط کر کے واپس کیا کرتا تھا؟ صدر مملکت اپنے وضاحتی بیان کے بعد صدارت کے آئینی عہدے پر رہنےکے اہل نہیں رہے۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے ایکس پر جاری پیغام میں کہا یہ تو ایک نیا پنڈور باکس کھل گیا ہے، اگر صورت حال واقعی ایسی ہی ہے جیسا کہ ڈاکٹر عارف علوی نے لکھا ہے تو یہ ریاست پاکستان، پارلیمنٹ اور قانون سازی کے ساتھ ساتھ 24 کروڑ پاکستانیوں کی توہین ہے۔
سینیٹر مشتاق احمد خان نے مزید کہا معاملات ایک دفعہ پھر عدالتوں میں جائیں گے، ملک کے اعلیٰ ترین منصب کے اس حال سے پاکستان کے حالات کا اندازہ لگایا جا سکتاہے، اللہ پاکستان پر رحم فرمائے۔
آفتاب خان شیرپاؤ نے کہا صدر مملکت کی معاملہ کو نیا رخ دینے کی کوشش نہایت قابل مذمت اقدام ہے، صدر نےاس عمل سے اپنے عہدے کی بے توقیری کی۔ غیرذمہ دارانہ بیان سے دنیا بھر میں ملک کی بدنامی کا باعث بنے۔