Home highlight بنچز اختیارات کیس کو ڈی لسٹ کرنے پر ایڈیشنل رجسٹرار کے خلاف توہین عدالت کیس کا فیصلہ محفوظ

بنچز اختیارات کیس کو ڈی لسٹ کرنے پر ایڈیشنل رجسٹرار کے خلاف توہین عدالت کیس کا فیصلہ محفوظ

Share
Share

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے بنچز اختیارات کیس کو ڈی لسٹ کرنے پر ایڈیشنل رجسٹرار کے خلاف توہین عدالت کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالتی فیصلے کمیٹی واپس لینے لگ جائے تو عدلیہ کی آزادی کمیٹی کے ہاتھ آجائے گی۔

ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ نذر عباس نے شوکاز نوٹس کا جواب جمع کرادیا، شوکاز نوٹس کے جواب میں ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس نے شوکاز نوٹس واپس لینے کی استدعا کرتے ہوئے موٴقف اپنایا کہ عدالتی حکم کی نافرمانی نہیں کی، عدالتی آرڈر پر بنچ بنانے کے معاملہ پر نوٹ بنا کر پریکٹس پروسیجر کمیٹی کو بھجوادیا تھا۔
سپریم کورٹ میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل دو رکنی بنچ ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت شوکاز نوٹس کیس کی سماعت کررہا ہے، عدالتی معاون حامد خان نے دلائل کا آغاز کردیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا جوڈیشل آرڈر کو انتظامی سائیڈ سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا؟
ایڈووکیٹ حامد خان نے جواب دیا کہ انتظامی آرڈر سے عدالتی حکم نامہ تبدیل نہیں ہو سکتا،سپریم کورٹ کی تشکیل آرٹیکل 175 کے تحت ہوئی ہے،جوڈیشل پاور پوری سپریم کورٹ کو تفویض کی گئی ہے، سپریم کورٹ کی تعریف بھی واضح ہے، تمام ججز شامل ہیں، یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فلاں مخصوص جج ہی سپریم کورٹ کی پاور استعمال کرسکتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس میں کہا کہ یہ سوال الگ ہے، اگر ہم آرٹیکل 191 اے کی تشریح کا کیس سنتے تو یہ سوال اٹھایا جا سکتا تھا، ہمارے سامنے کیس ججز کمیٹی کے واپس لینے سے متعلق ہے، چیف جسٹس پاکستان اور جسٹس امین الدین خان ججز کمیٹی کا حصہ ہیں، بادی النظر میں دو رکنی ججز کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کیا، اگر ججز کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز کرے تو معاملہ فل کورٹ میں جا سکتا ہے، اس سوال پر معاونت دیں۔
جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیئے کہ بظاہر لگتا ہے اس معاملے پر کنفیوڑن تو ہے، حامد خان صاحب آپ آرٹیکل 191 اے کو کیسے دیکھتے ہیں؟ ماضی میں بنچز تشکیل جیسے معاملات پر رولز بنانا سپریم کورٹ کا اختیار تھا، اب سپریم کورٹ کے کچھ اختیارات ختم کر دیئے گئے ہیں، یہ خیر چلیں 26 ویں ترمیم کا سوال آجائے گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا دنیا کے کسی ملک میں بنچ عدلیہ کے بجائے ایگزیکٹو بناتا ہے؟ حامد خان صاحب آپ کے ذہن میں کوئی ایک ایسی مثال ہو؟ جس پر عدالتی معاون حامد خان نے جواب دیا کہ ایسا کہیں نہیں ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ رولز 1980 کے تحت فل کورٹ چیف جسٹس پاکستان بنائیں گے یا کمیٹی بنائے گی؟ کیا جوڈیشل آرڈر کے ذریعے فل کورٹ کی تشکیل کیلئے معاملہ ججز کمیٹی کو بجھوایا جا سکتا ہے۔
حامد خان نے جواب دیا کہ ریگولر ججز کمیٹی کے ایکٹ کا سیکشن 2اے آرٹیکل 191 اے سے ہم آہنگ نہیں ہے، پارلیمنٹ عدلیہ کے اختیارات بڑھا سکتی ہے کم نہیں کر سکتی، میں آرٹیکل 191 اے کی مثال دینا چاہتا ہوں۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس میں کہا کہ اس کا اختیار موجودہ کیس سے الگ ہے، یہ سوالات 26 ویں آئینی ترمیم سے متعلق ہیں۔
حامد خان بولے کہ آرٹیکل 191 اے میں آئینی بنچز کا ذکر ہے، سپریم کورٹ میں ایک آئینی بنچ کا ذکر نہیں ہے، کم از کم پانچ ججز پر مشتمل ایک آئینی بنچ ہو سکتا ہے، اس صورتحال میں تین آئینی بنچز بن سکتے ہیں جو ان میں سینئر ہوگا وہی سربراہ ہوگا، آرٹیکل 191 اے ججز کمیٹی کے سیکشن 2 اے سے ہم آہنگ نہیں اس لیے خلاف آئین ہے۔
عدالتی معاون حامد خان کے دلائل مکمل ہونے کیس کی سماعت کچھ دیر کیلئے وقفہ کردیا گیا۔
سماعت دوربارہ شروع ہو ئی تو عدالتی معاون احسن بھون نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں کچھ کچھ فیصلے ہوئے جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ماضی کیا حالیہ مخصوص نشستوں کا فیصلہ ابھی پڑا ہے، ماضی میں اتنا نہ جائیں، آپ ہمارے یونیورسٹی کے دوست بھی ہیں۔
احسن بھون نے کہا کہ ماضی میں تشریح کے نام پر آئینی آرٹیکل کو غیر موٴثر کیا گیا جس پر جسٹس منصور نے ریمارکس میں کہا کہ آجکل تو ایسا کچھ نہیں ہوا، حال میں تو سب ٹھیک ہے، احسن بھون بولے کہ حال تو مائی لارڈ اب لکھیں گے، ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں کوئی فیصلہ نہ کیا جائے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ہم تو آئینی بنچ نہیں ہیں ہم نے کیا کرنا ہے، ہم تو ویسے ہی گپ شپ کر رہے ہیں جس پر احسن بھون نے کہا کہ اس لیے ہم چاہتے تھے کہ آئینی عدالت بنے،اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ تھوڑا دھکا اور لگا کر آئینی عدالت بنا لیتے،احسن بھون نے جوان دیا کہ دھکا تو ہم نے لگایا تھا،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم نے آرٹیکل 191اے کا جائزہ لینا تھا، جائزہ کے دوران کیس بنچ سے واپس لے لیا گیا۔
دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ اور احسن بھون کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا جس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
احسن بھون نے کہا کہ اس کیس میں جتنے عدالتی فیصلوں کے حوالے دیے جا رہے ہیں 26ویں ترمیم کے بعد وہ غیر موٴثر ہو چکے ہیں، آپ ججز کمیٹی کا حصہ ہیں، آپ بیٹھیں یا نہ بیٹھیں یہ الگ بات ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں تو جوڈیشل کمیشن کا بھی ممبر ہوں، احسن بھون بولے کہ جوڈیشل کمیشن اجلاس میں ججز بھی لگائے جا رہے ہیں، اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس میں کہا کہ ہم جو ججز نامزد کرتے ہیں انھیں تو ایک ہی ووٹ ملتا ہے وہ بھی ہمارا ہی ہوتا ہے، باقیوں کو گیارہ گیارہ ووٹ پڑ جاتے ہیں، یہ تو گپ شپ لگتی رہے گی، ہم آرڈر کریں فل کورٹ نہ بنے تو کیا فائدہ؟ اب پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا سیکشن 2 اے آگیا ہے۔
وکیل صلاح الدین نے کہا کہ فل کورٹ بنچ نہیں، ججز موجود ہوتے ہیں چیف جسٹس نے فل کورٹ بنانا ہوتا ہے۔
عدالتی معاون خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کر تے ہوئے کہا کہ آئین یہ نہیں کہتا کیسز کس نے اسائن کرنے ہیں، ہائیکورٹ اگر سرٹیفکیٹ دے دیتا ہے کہ یہ آئینی سوال موجود ہے تو وہ بھی آپ سن سکتے ہیں، ڈائیریکٹ اپیل کے تمام کیسز آپ سن سکتے ہیں، 185 (3) کا دائرہ اختیار وہاں نہیں ہے جہاں آپ دیکھ رہے ہیں۔
خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ سول اورکریمنل کیسز میں آئینی سوالات ریگولر بنچ دیکھ سکتا ہے، آرٹیکل 185 تین پر مگر دائرہ اختیار کا معاملہ آجاتا ہے اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ابھی 63 اے کا ایک کیس تھا اس میں ریگولر بنچ میں ہم نے فیصلہ دیا، یہاں کیس ہم سے واپس لیکر کمیٹی نے آئینی بنچ میں لگا دیا۔
عدالتی معاون نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی ڈائریکٹ کیس آئینی بنچ میں نہیں لگا سکتی، آئینی بنچ میں کیس آئینی کمیٹی ہی لگا سکتی ہے، اگر سادہ کمیٹی نے ایسا کیا تو غلط کیا ہے، مجھے پتہ چلا کہ جو بنچ پہلے کیس سن رہا تھا وہ اگلے ہفتے کیلئے بنچ شیڈول میں نہیں تھا، ایسی صورتحال میں کمیٹی کیس کسی اور بنچ میں لگا دینے کی مجاز ہے، کمیٹی کا کیس واپس لینا اس کے آئینی مینڈیٹ کے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔
خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس اختیار کے استعمال کو جوڈیشل آرڈر کی خلاف ورزی پر نہیں پرکھنا چاہیے، پریکٹس اینڈ پروسیجر آج بھی ایک نافذ العمل قانون ہے، سپریم کورٹ کا بنچ قانون کے مطابق کوئی بھی حکم جاری کر سکتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا انتظامی کمیٹی جوڈیشل آرڈر کے درست ہونے کا جائزہ لے سکتی ہے؟ اگر ہمارا16 جنوری کا آرڈر غلط ہے تو کیا وہ جوڈیشل فورم پر ہی چیلنج نہیں ہو گا؟
خواجہ حارث نے کہا کہ یہاں آپ کی بات درست ہے مگر میں اس کو صرف الگ تناظر میں دیکھ رہا ہوں جس پر جسٹس عقیل عباسی نے استفسار کیا کہ کیا آئین میں نہیں لکھا کہ سپریم کورٹ کا آرڈر تمام ایگزیکٹو اتھارٹیز کو ماننا لازم ہے؟ کیا سپریم کورٹ کی انتظامی کمیٹی پر یہ آئینی شق لاگو نہیں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالتی فیصلے کمیٹی واپس لینے لگ جائے تو عدلیہ کی آزادی کمیٹی کے ہاتھ آجائے گی۔
بعدازاں اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔

Share
Related Articles

قومی اسمبلی سے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2024ء کثرت رائے سے منظور،اپوزیشن کا احتجاج

اسلام آباد:قومی اسمبلی نے سوشل میڈیا قوانین سخت کرنے سے متعلق پیکا...

تحریک انصاف کا حکومت سے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان

راولپنڈی: پاکستان تحریک انصاف نے حکومت سے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان...

ڈیفالٹ کا خواب دیکھنے والے ملک دشمن ٹولے کو پاکستان کی ترقی ہضم نہیں ہو رہی،شہباز شریف

اسلام آباد:وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ڈیفالٹ کا خواب دیکھنے...

ڈیجیٹل نیشن بل آزاد شہریوں کے لئے خطرہ ہے، عمر ایوب کا چیئرمین قائمہ کمیٹی آئی ٹی کو خط

اسلام آباد:قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے چیئرمین قائمہ کمیٹی...