اسلام آباد:سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل کالعدم کرنے کے خلاف حکومتی اپیلوں کی سماعت کے دوران نو اور دس مئی کی ایف آئی آرز کی تفصیلات طلب کرلیں ۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ سویلینز کو بنیادی حقوق سے کیسے محروم کیا جا سکتا ہے؟۔
سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی۔
وفاقی حکومت کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ ملٹری کورٹس کیس میں عدالتی فیصلہ دو حصوں پر مشتمل ہے، ایک حصے میں آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا، دوسرے میں ملزمان کی ملٹری کورٹ میں کسٹڈی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا پانچ رکنی بینچ نے آرمی ایکٹ دفعات کو آرٹیکل 8 (شہریوں کے بنیادی حقوق) سے متصادم قرار دیا، آرمی ایکٹ کی دفعات کو آرٹیکل 8 سے متصادم ہونے کا کیا جواز فیصلے میں دیا گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ملٹری کورٹس کا پورا کیس آرٹیکل 8 کے گرد گھومتا ہے، جو شخص آرمڈفورسز میں نہیں وہ اس کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آ سکتا ہے؟
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اگر قانون اجازت دیتا ہے تو ڈسپلن کا اطلاق ہوگا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایک شخص آرمی میں ہے اس پر ملٹری ڈسپلن کا اطلاق ہوگا، ایک شخص محکمہ زراعت میں ہے اس پر محکمہ زراعت کے ڈسپلن کا اطلاق ہوگا، اگر کوئی شخص کسی محکمہ میں سرے سے ہے نہیں اس پر آرمی فورسز کے ڈسپلن کا اطلاق کیسے ہوگا، کیا غیر متعلقہ شخص کو ڈسپلن کے نیچے لانا آرٹیکل 8 کی خلاف ورزی نہیں ہوگی، جو شخص آرمی ایکٹ کا سبجیکٹ نہیں اسکو بنیادی حقوق کیسے محروم کیا جا سکتا ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ مخصوص حالات میں سویلین پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے، ملٹری ٹرائل میں بھی فیئر ٹرائل کے آرٹیکل 10 اے موجود ہوتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایف بی علی اور شیخ ریاض علی کیس میں یہی قرار دیا گیا، چار ججز نے فیصلہ میں آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم کیا۔
خواجہ حارث نے نکتہ اٹھایا کہ عدالت کے پاس آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم کرنے کا اختیار نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس طرح تو اگر کوئی اکسانے کا سوچے اس پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوگا، کیا آرمی ایکٹ نے آئین کے آرٹیکل 8 کے سیکشنز غیر موٴثر نہیں کردیے؟ پاکستان میں سب سے بڑا عہدہ صدر پاکستان کا ہے، اگر صدر ہاؤس پر حملہ ہوتا ملزم کو ٹرائل انسداد دہشت گردی عدالت میں ہوگا، اگر آرمی املاک پر حملہ ہو تو ٹرائل ملٹری کورٹ میں۔
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ یہ فیصلہ قانون سازوں نے قانون سازی سے کیا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر ایک فوجی اپنے افسر کا قتل کر دے تو کیس کہاں چلے گا۔ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ قتل کا کیس عام عدالت میں چلے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ چھاؤنی کا تصور سب سے پہلے حضرت عمر فاروق نے دیا تھا، حضرت عمر فاروق نے سخت ڈسپلن کی وجہ سے ہی فوج کو باقی عوام سے الگ رکھا، آئین کے آرٹیکل آٹھ میں آرمی قوانین کا ذکر ان کے ڈسپلن کے حوالے سے ہے، فوج کا ڈسپلن آج بھی قائم ہے اور اللہ اسے قائم ہی رکھے، فوج کے ڈسپلن میں اگر عام لوگوں کو شامل کیا تو خدانخواستہ یہ تباہ نہ ہوجائے، فوجی کو قتل کرنے والے کا مقدمہ عام عدالت میں چلتا ہے، فوجی تنصیبات پر حملہ بھی تو انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت ہی جرم ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے بھی کہا کہ ذاتی عناد پر فوجی کا قتل الگ اور بلوچستان طرز پر فوج پر حملہ الگ چیزیں ہیں۔
سپریم کورٹ نے نو اور دس مئی کی ایف آئی آرز کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے ملٹری کورٹ کیس کی سماعت کل جمعہ تک ملتوی کردی۔