اسلام آباد:سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ موجودہ نظام کے تحت شہری کا کورٹ مارشل ہو سکتا یا نہیں؟ ۔وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ شہریوں کا کورٹ مارشل کسی صورت میں بھی ممکن نہیں۔
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے۔
دورانِ سماعت ملٹری کورٹ سے سنائی گئی سزا پر اپیل کنندہ کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ بینچ کی جانب سے بھارت میں کورٹ مارشل کے خلاف اپیل کا حق دینے کا سوال ہوا تھا، برطانیہ میں کورٹ مارشل فوجی افسر نہیں بلکہ ہائی کورٹ طرز پر تعینات ججز کرتے ہیں، کمانڈنگ افسر صرف سنجیدہ نوعیت کا کیس ہونے پر مقدمہ آزاد فورم کو بھیج سکتا ہے۔
جسٹس امین الدین نے وکیل سے کہا کہ ہم نے اپنا قانون دیکھنا ہے کہ برطانیہ کا نہیں، غیر ضروری بحث سے وقت ضائع کر رہے ہیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ زیرِ سماعت اپیلوں میں کالعدم شدہ دفعات بحالی کی استدعا کی گئی ہے، قانون کی شقوں کا جائزہ لینا ہے تو عالمی قوانین کو بھی دیکھنا ہو گا، اگر دفعات کالعدم نہ ہوتیں تو دلائل غیر متعلقہ ہو سکتے تھے، اب نہیں ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے سوال کیا کہ موجودہ نظام کے تحت شہری کا کورٹ مارشل ہوسکتا ہے یا نہیں؟۔وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ شہریوں کا کورٹ مارشل کسی صورت میں بھی ممکن نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل سے سوال کیا کہ برطانوی قانون تو اپنی فوج کے ڈسپلن سے متعلق ہے، موجودہ کیس میں تو جرم عام شہریوں نے کیا ہے، شہریوں پر کیسے لاگو ہو سکتا ہے؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ برطانوی قانون کی مثال ٹرائل کے آزاد اور شفاف ہونے کے تناظر میں دی ہے۔