اسلام آباد:قائدانہ صلاحیتوں کی مالک سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید کا 17 واں یوم شہادت آج منایا جارہا ہے۔
دو بار پاکستان کی وزیراعظم بننے والی بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں سیاسی مخالفین کے ساتھ جنرل ضیا اور جنرل مشرف کی آمریتوں کا مقابلہ کیا۔
اکیس جون 1953 کو سندھ دھرتی نے ایک ایسی بیٹی کو جنم دیا جس نے تاریخ لکھی، خاتون ہونے کے باوجود سخت ترین حالات میں بھی اپنی لیڈر شپ کا لوہا منوایا۔
بے نظیر بھٹو نے سیاسی گھرانے میں پرورش پائی، کونوینٹ آف جیزز اینڈ میری اور کراچی گرامر اسکول سیابتدائی تعلیم حاصل کرنے والی بینظیر نے جو خواب دیکھے انہیں عملی جامہ بھی پہنایا۔
ہارورڈ اور آکسفورڈ جیسے بڑے اداروں سے علم و دانش کے موتی سمیٹے، یہ علم، یہ بصیرت، انہیں ملک کی قیادت کرنے کے لیے تیار کررہی تھی۔
سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی بیٹی کو سیاسی جانشین منتخب کیا، مارشل لاء کے کالے سائے ہوں یا والد کی پھانسی کا دکھ، بے نظیر کبھی جھکی نہیں، کبھی رکی نہیں۔
سال 1986 میں جلاوطنی کے بعد پاکستان میں امید کا جلوس لے کر لوٹیں، لاکھوں لوگ استقبال کے لیے سڑکوں پر تھے، قوم نے اپنی بیٹی کو گلے لگا لیا۔
سال 1988 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں لیکن اقتدار کے راستے کبھی آسان نہ تھے۔
سازشیں، الزامات اور انتقام ان کے پاو?ں کی زنجیر بنتے رہے، بینظیر بھٹو کی حکومت کو دو بار برطرف کیا گیا۔
مشکلات بڑھتی رہیں لیکن نہ ختم ہونے والی مشکلات بینظیر کے راستے کی دیوار بننے کی بجائیان کا عزم وحوصلہ مزید پختہ کرتی چلی گئیں، اقتدار کا حصول سیاست نہیں مشن تھا، عوام کو ان کے حقوق دلانے اور جمہوریت کی شمع روشن رکھنے کے لیے۔
سال 2007 میں جلاوطنی کا دوسرا دور ختم کرکے واپس لوٹیں تو موت کے سائے ان کیسر پر منڈلا رہے تھے، 18 اکتوبر کو کراچی میں ان کے استقبالی جلوس پر بم دھماکے ہوئے، سانحہ کارساز میں درجنوں لوگ لقمہ اجل بن گئے، یہ سلسلہ رکا نہیں اور پھر وہ دل دہلا دینے والا دن آیا۔
ستائیس دسمبر 2007 لیاقت باغ، راولپنڈی میں ایک جلسے کے بعد، وہ عوام سے محبت کی قیمت اپنی جان سے چکانے کے لیے تیار تھیں، ایک قاتلانہ حملے میں پاکستان نے اپنی بیٹی کھو دی۔لیکن بے نظیر بھٹو کی کہانی موت کے ساتھ ختم نہ ہوئی، جمہوریت کے لیے کی جانے والی ہر جدوجہد کی تحریک میں ان کا نام گونجتا ہے۔
گڑھی خدا بخش میں اپنے والد اور بھائیوں کے پہلو میں دفن، وہ تاریخ کے اس باب کی نگہبان ہیں جو ہمیشہ جرات، قربانی اور امید کی علامت بنا رہے گا۔
سیاسی کارکن یقین رکھتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو نے ثابت کردیا کہ عورت کا بلند عزم پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرسکتا ہے۔