اسلام آباد: چیف جسٹس عمرعطاء بندیال نے کہا ہے کہ یہ کہنا نظرثانی میں کیس دوبارہ سنا جائے یہ بنیادی اصول کے منافی ہے، ہم اس معاملے کو حل کر سکتے ہیں، آرٹیکل 184 کی شق تین کے فیصلے کیخلاف اپیل کے قانون کیلئے آپکی رائے ہونی چاہیے تھی۔
سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات اور ریویو اینڈ ججمنٹ سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیے کہ ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈرز ایکٹ کے تحت آرٹیکل 184 کی شق تین کے فیصلے کیخلاف اپیل پانچ رکنی بنچ سنے گا، پانچ رکنی بنچ میں وہ تین ججز بھی شامل ہونگے جنھوں نے پہلے فیصلہ دیا ہوگا۔
اٹارنی جنرل نے بھارتی سپریم کورٹ کے 2002 کیوریٹو ریویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے کہا انصاف دینا کسی فیصلے کے حتمی ہونے سے کم اہم نہیں اور انصاف کا قتل ہوا ہے تو اسے ٹھیک کرنا بھی ججوں کی ذمہ داری ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بھارتی سپریم کورٹ کا یہ ریویو محدود گراوٴنڈز پر ہی تھا، اگر کسی کی فیصلہ سے جان جا رہی ہو اور پتہ چلے اس کا دماغی توازن ہی ٹھیک نہیں تو نظر ثانی سے انکار نہیں ہوسکتا، بھارتی سپریم کورٹ کے رولز کو بھی دیکھنا ہوگا کہ انہوں نے یہ کیسے کیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتخابی معاملے سمیت ایسے فیصلے بھی ہیں جو ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ نہیں آتے لیکن عدالت انھیں اپیل کے طور پر سنتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا نظرثانی کو اپیل کا درجہ دیا جاسکتا ہے یا نہیں، آپ کا یہ کہنا نظرثانی میں کیس دوبارہ سنا جائے یہ بنیادی اصول کے منافی ہے، ہم اس معاملے کو حل کر سکتے ہیں، آرٹیکل 184 کی شق تین کے فیصلے کیخلاف اپیل کے قانون کیلئے آپکی رائے ہونی چاہیے تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اصل سوال کی طرف ابھی تک نہیں آئے، نظرثانی کا اختیار سماعت کی کہاں تک توسیع کی جاسکتی ہے، نظرثانی کا اختیار سماعت بڑھانے کی بات تو کر رہے ہیں لیکن گراوٴنڈز تو بتائیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک قانون میں آپ کہہ رہے ہیں اپیل کا حق دیا جائے، دوسرے قانون میں چاہتے ہیں نظرثانی اپیل کی طرز پر ہے، یہ تو تضاد ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس وقت ایک قانون کو عدالت نے معطل کر رکھا ہے، اس وقت نافذ العمل قانون صرف ایک ہی ہے۔