فہیم خان
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی امریکہ میں جاری اسیری پاکستان میں ملے جلے جذبات اور خیالات کو جنم دیتی ہے۔ بہت سی غلط فہمیاں اور دانستہ غلط اطلاعات بھی صورتحال کو مزید گھمبیر بناتی ہیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک بہت اذیت ناک زندگی گزار رہی ہیں جس میں ان پر مختلف قسم کا جسمانی تشدد کیا جا رہا ہے۔
ایک طبقہ سمجھتا ہے کہ وہ یقیناً شدت پسندوں اور القاعدہ کے ساتھ مبینہ طور پر رہی ہیں اور جو کچھ ان کے ساتھ ہو رہا ہے، اس کی حقدار ہیں۔ پھر ایسے مذہبی سوچ رکھنے والے پاکستانی بھی ہیں جو اسے دینی رنگ دے کر کہتے ہیں کہ انہیں مسلمان ہونے کی وجہ سے سزا دی جا رہی ہے۔
مارچ 2003 میں پاکستانی نیورو سائنسدان ڈاکٹر عافیہ کراچی سے لاپتہ ہوئی تھیں۔ انھیں افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملے کے الزام میں 2010 میں امریکہ میں 86 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ امریکی محکمہ انصاف نے انھیں ’القاعدہ کی رکن اور سہولت کار‘ قرار دیا تھا۔تاہم عافیہ صدیقی کے حامی سزا کے اس فیصلے کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔ گذشتہ کئی برسوں سے ان کی پاکستان واپسی کی تحریک چلائی جا رہی ہے جس کی سربراہی ان کی اپنی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کر رہی ہیں۔
عافیہ صدیقی 2003ء میں لاپتہ ہوئیں اور تقریباً پانچ برس بعد یہ حقیقت سامنے آئی کہ وہ امریکی تحویل میں ہیں۔ عافیہ کے اہل خانہ کا مو قف ہے کہ وہ اس عرصہ کے دوران افغانستان میں امریکی جیل بگرام میں زیرِحراست تھیں۔ تاہم امریکی حکام اس کی تردید کرتے رہے ہیں۔ عافیہ صدیقی کیس کے حقائق کافی پیچیدہ ہیں۔ عافیہ صدیقی انسانیت سوز مظالم سہنے کے بعد امریکی عدالتوں سے سزا پا چکی ہیں۔اس وقت بھی امریکہ کی جیل میں پابند سلاسل ہیں۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا تعلق کراچی کے ایک نسبتاً متمول مذہبی گھرانے سے ہے۔عافیہ کے والد چونکہ ڈاکٹر تھے چنانچہ انہوں نے بیٹی کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی۔بعدازاں 90ء کی دہائی میں عافیہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ امریکہ چلی گئیں جہاں سے انہوں نے(Cognitive neuroscience)کی ڈگری حاصل کی۔
امریکہ سے تعلیم یافتہ خاتون جن کا افغانستان پہنچنا آج تک ایک معمہ ہے ڈاکٹر عافیہ مارچ 2003 میں کراچی سے لاپتہ ہوئیں۔ ان کے اہلخانہ کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو کراچی میں ان کی رہائش گاہ سے قبل تین بچوں سمیت حراست میں لیا گیا تھا۔تاہم پاکستانی اور امریکی حکام اس کی تردید کرتے آئے ہیں۔
امریکہ نے جولائی 2007 میں ان کی افغانستان سے حراست کو ظاہر کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ڈاکٹر عافیہ نے امریکی فوجیوں پر فائرنگ کر کے انھیں قتل کی کوشش کی۔ایف بی آئی اور نیویارک کے پولیس کمشنر ریمنڈ کیلی کی طرف سے عافیہ صدیقی کے خلاف مقدمے میں جاری کیے جانے والے ایک بیان کے مطابق ڈاکٹر عافیہ کو افغانستان میں غزنی کے صوبے سے گرفتار کیا گیا۔
امریکی حکام کے مطابق افغان پولیس کو شیشے کے مرتبانوں اور بوتلوں میں سے کچھ دستاویزات ملی تھیں جن میں بم بنانے کے طریقے درج تھے۔اس بیان میں کہا گیا ڈاکٹر عافیہ ایک کمرے میں بند تھیں جب ان سے تفتیش کے لیے ایف بی آئی اور امریکی فوجیوں کی ایک ٹیم پہنچی تو انھوں نے پردے کے پیچھے سے ان پر دو گولیاں چلائیں لیکن وہ کسی کو نشانہ نہ بنا سکیں۔ایک امریکی فوجی کی جوابی فائرنگ اور اس کے بعد کشمکش میں ڈاکٹر عافیہ زخمی ہو گئی تھیں۔بعدازاں ان پر امریکہ میں مقدمہ چلایا گیا اور سنہ 2010 میں انھیں 86 برس قید کی سزا سنائی گئی۔
برطانوی اخبار دی گارڈین کی جانب سے خلیج گوانتانامو کے حراستی مرکز کی شائع کردہ خفیہ دستاویزات (گوانتانامو فائلز) کے مطابق پاکستانی نیورو سائنٹسٹ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امریکہ میں دھماکہ خیز مواد سمگل کرنے کی کوشش اور القاعدہ کو بائیولوجیکل ہتھیار بنا کر دینے کی پیشکش کی تھی۔
یہ الزامات امریکی انٹیلیجنس کے تجزیے اور القاعدہ کے کم از کم تین سینئر ارکان سے براہ راست تفتیش کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات کے نتیجے میں لگائے گئے، جن میں امریکہ میں 11 ستمبر کے حملوں کے منصوبہ ساز خالد شیخ محمد بھی شامل تھے۔
تاہم ان معلومات کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں کی جا سکتی اور اس بات کا امکان ہے کہ ملزمان سے یہ بیانات تشدد کے ذریعے حاصل کیے گئے ہوں گے۔علاوہ ازیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ وہ القاعدہ کے سرکردہ رہنما خالد شیخ محمد کے بھتیجے کی اہلیہ ہیں۔
برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق گوانتانامو کی فائلوں سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ڈاکٹر عافیہ دو ہزار دو اور تین کے دوران کراچی میں القاعدہ کے سیل میں شامل تھیں اور اس سیل کے ارکان نے گیارہ ستمبر کے حملوں کی کامیابی کے بعد امریکہ، لندن کے ہیتھرو ائرپورٹ اور پاکستان میں مزید حملوں کے منصوبے بنائے۔
دوسر ی جانب رواں برس قریب 20 سال سے امریکہ میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی اپنی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان سے ملاقات ہوئی ہے۔ریاست ٹیکساس کے فورٹ ورتھ جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ سے ”تین گھنٹے طویل ملاقات‘ ‘کے بعد سینیٹر مشتاق نے اس حوالے سے چند تفصیلات جاری کیں لیکن تاحال امریکی حکام یا پاکستانی دفتر خارجہ نے اس ملاقات سے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
ڈاکٹر عافیہ سے ان کی بہن کی کل دو ملاقاتیں ہوئی ہیں جن میں سے پہلی ملاقات میں وہ تنہا تھیں جبکہ دوسری ملاقات میں ان کے ساتھ وکیل کلائیو سٹیفورڈ سمتھ اور جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان بھی موجود ہیں۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے بتایا ہے کہ یہ ملاقات جس جگہ ہوئی وہاں دونوں بہنوں کے درمیان جیل کے ایک کمرے کے درمیان میں موٹا شیشہ موجود تھا۔ ڈاکٹر فوزیہ کو اس بات کی اجازت بھی نہیں دی گئی کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کو ان کے بچوں کی تصاویر دکھا سکیں۔
ڈاکٹر عافیہ افغانستان کیسے پہنچیں ،وہ وہاں خود گئیں یاکوئی انہیں افغانستان لے کر گیا،یہ اور ایسے ان گنت سوالات کا جواب شاید کبھی سامنے نہ آ سکے کیونکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے موجودہ دور میں سب سے نایاب چیز انفارمیشن خودہے۔عافیہ صدیقی کیس کے بہت سے پہلو تاحال پوشیدہ ہیں۔ تاہم یہ امرِواقعہ ہے کہ عافیہ دنیا کی واحد سپرپاور امریکہ کے انسانیت سوز مظالم کے سامنے ڈٹی رہی ہے۔ شاید کبھی اس کے حقائق کی بازیافت ہوسکے۔