نیویارک:سیٹلائٹ امیجز سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح غزہ کو ایک سال میں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کیا گیا جس میں اب تک 42 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور 98 ہزار کے قریب زخمی ہوچکے ہیں۔
7 اکتوبر 2023 کو، حماس کے جنگجو پیرا گلائیڈرز کی مدد سے اسرائیل میں داخل ہوئے اور ‘آپریشن الاقصیٔ فلڈ’ انجام دیا جس میں 1500 اسرائیلی ہلاک ہوگئے اور 250 کو یرغمال بناکر غزہ لایا گیا۔
اسرائیل نے جواب میں وحشیانہ بمباری شروع کی جو تاحال جاری ہے اور جنگ کا دائرہ غزہ پھر مغربی کنارے اور اب لبنان تک پہنچ گیا۔
ایک سال سے جاری مسلسل بمباری میں غزہ کھنڈر بن کر رہ گیا، رہائشی علاقے ملیامیٹ ہوگئے۔ 66 فیصد سے زیادہ عمارتیں زمین بوس ہوچکی ہیں اور 70 فیصد آبادی بےگھر ہوگئ۔
اقوام متحدہ کے سیٹلائٹ سینٹر (UNOSAT) نے 365 مربع کلومیٹر زمین کی سیٹلائٹ تصاویر کا تجزیہ کیا۔ اس رپورٹ میں ستمبر 2024 کی سٹیلائٹ تصاویر کا موازنہ حملہ شروع ہونے سے پہلے لی گئی تصاویر سے کیا گیا۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایک سال میں غزہ کے اندر مجموعی طور پر ایک لاکھ 63 ہزار 778 عمارتوں کو نقصان پہنچایا گیا جن میں سے 52 ہزار 564 عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں۔
اسی طرح 18 ہزار 913 عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا ہے اور وہ کسی بھی وقت گر سکتی ہیں جب کہ 56 ہزار 710 عمارتوں کو معمولی نقصان پہنچا لیکن وہ قیام کے قابل نہیں رہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق صرف 35 ہزار سے زائد ایسی عمارتیں ہیں جو محفوظ ہیں اور ان میں قیام کیا جا سکتا ہے۔ غزہ میں 42 ملین ٹن سے زیادہ ملبہ موجود ہے۔
شمالی غزہ میں 31.3 مربع کلومیٹر رقبہ ہے، جس میں سے 24.6 مربع کلومیٹر یعنی 79 فیصد تباہ ہو چکا ہے اور صرف 6.7 مربع کلومیٹر باقی بچا ہے۔
یاد رہے کہ غزہ دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آباد علاقوں میں سے ایک ہے جہاں 2.3 ملین سے زیادہ لوگ دہلی کے سائز کے ایک چوتھائی حصے میں رہتے ہیں۔
مسلسل بمباری سے غزہ میں کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں جب کہ پورے شہر میں اکا دکا ہی پودے زندہ بچے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے UNOSAT نے نارملائزڈ ڈیفرنس ویجیٹیشن انڈیکس (NDVI) کا استعمال کرتے ہوئے مٹی کٹاؤ اور فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ لگایا۔
تجزیہ سے پتہ چلتا کہ ہے کہ فصلیں تباہ ہونے سے وہاں خوراک میں کمی سامان ہے۔ غزہ کی پٹی میں زرعی زمین 150 مربع کلومیٹر تک ہے جو کُل رقبے کا تقریباً 41 فیصد ہے۔