بھارتی وزیر خارجہ جے شنکرکاکہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ دائمی دشمنی کے خول میں بند رہنا ہمارے مفاد میں نہیں ہے۔ کوئی بھی ایسا نہیں چاہتا۔ یہ عقل کے خلاف ہے۔ لیکن ہمیں لکیر کھینچنی ہوگی۔ اگر کوئی پڑوسی مجھ پر حملہ کرتا ہے، تو میں نہیں سمجھتا کہ معمول کے مطابق کاروبار کرنا چاہیے۔
بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق ریاست کرناٹک کے شہر میسور میں حکومت کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے کہا کہ ’اگر مہمان اچھا ہو تو وہ اچھے میزبان ہیں۔پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے شنگھائی تعاون تنظیم کے دوران سائیڈ لائن ملاقاتوں میں صرف انڈیا کے حوالے سے بات کی۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کے وزیر خارجہ کو ایس سی او کے وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ لیکن اگر آپ ایس سی او اجلاس کے باہر ان کے بیانات دیکھیں تو انہوں نے صرف بھارت کے حوالے سے بات کی، جیسے جی20، کشمیر اور بی بی سی کی ڈاکیومنٹری، لیکن ایس سی او کے بارے میں کچھ نہیں بولا۔ میں بطور میزبان کیا کروں؟ اگر میرے پاس کوئی اچھا مہمان ہے تو میں ایک اچھا میزبان ہوں۔
جے شنکر نے کہا کہ ’ہم نے پاکستانی وزیر خارجہ کو اس لیے مدعو کیا تھا کیونکہ ایس سی او کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہو رہا تھا۔ جب کثیر الجہتی اجلاس ہو تو آپ لوگوں کو اس موضوع پر گفتگو کے لیے بلاتے ہیں۔ بلاول بھٹو کو پاکستان کے نمائندے کی حیثیت میں بلایا گیا تھا تاکہ وہ ایس سی او سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کریں۔
’ہم اختلاف کر سکتے ہیں، ان کا اپنا نقطہ نظر ہو سکتا ہے، میرا اپنا نقطہ نظر ہو سکتا ہے اور ایس سی او کا ایک میٹنگ روم ہے جہاں ہم بحث کریں گے اور اختلاف کریں گے۔‘
بھارت کی جانب سے ایران میں بندرگاہ کی تعمیر کے حوالے سے بھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ جب تک پاکستان میں کچھ معجزانہ طور پر نہیں ہوتا، انڈیا کو وسطی ایشیا اور اس سے آگے تک رسائی کے لیے پاکستان کے ارد گرد راستہ تلاش کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہاکہ ’پاکستان کے ساتھ دائمی دشمنی کے خول میں بند رہنا ہمارے مفاد میں نہیں ہے۔ کوئی بھی ایسا نہیں چاہتا۔ یہ عقل کے خلاف ہے۔ لیکن ہمیں لکیر کھینچنی ہوگی۔ اگر کوئی پڑوسی مجھ پر حملہ کرتا ہے، تو میں نہیں سمجھتا کہ معمول کے مطابق کاروبار کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہ انڈین ریاست گوا میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر پاکستان اور انڈیا کے وزرائے خارجہ کے درمیان باضابطہ ملاقات نہیں ہوئی تاہم دونوں نے ایک دوسرے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔