اسلام آباد: سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ نظرثانی 27ماہ بعد سماعت کیلئے مقرر ہوئی، معاملے پر جلد بازی کا الزام بے بنیاد ہے، سابق چیف جسٹس عمر عطابندیال نے پورے دور میں نظر ثانی سماعت کیلئے مقرر نہیں کی۔
سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63اے نظر ثانی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔ فیصلہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا ہے جو کہ 23 صفحات پر مشتمل ہے۔
فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ صدارتی ریفرنس عارف علوی نے سپریم کورٹ بھیجا تھا، صدارتی ریفرنس میں کابینہ سے منظوری یا وزیراعظم کی ایڈوائز کا کوئی حوالہ منسلک نہیں کیا گیا، سپریم کورٹ نے ایک آئینی درخواست کی سماعت کے دوران سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کا بیان ریکارڈ کیا۔
فیصلے میں بتایا گیا کہ سابق اٹارنی جنرل نے کہا ہم آرٹیکل 63اے کے بارے میں ایک ریفرنس لا رہے ہیں، سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل دو رکنی بنچ نے حکم نامے میں لکھوایا ریفرنس اور آئینی درخواست کو یکجا کیا جائے، حیران کُن طور پر صدر مملکت اس وقت بیچ میں آئے جب وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے معاملے پر سیاسی جھگڑا چل رہا تھا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ جسٹس منیب اختر ریگولر مقدمات کیلئے دستیاب تھے لیکن نظر ثانی بنچ میں شامل نہیں ہوئے، 27ماہ بعد نظر ثانی سماعت کیلئے مقرر ہوئی، معاملے پر جلد بازی کا الزام مکمل طور پر بے بنیاد ہے، سابق چیف جسٹس عمر عطابندیال نے پورے دور میں نظر ثانی سماعت کیلئے مقرر نہیں کی، جسٹس منیب اختر نے بھی سابق چیف جسٹس عمر عطابندیال کو نظر ثانی سماعت کیلئے مقرر کرنے کی یاد دہانی نہیں کرائی۔