نئی دہلی: بھارت میں ایک بار پھر مذہبی عقیدت کو دھوکہ اور منافع کے ذریعے میں بدلنے کا افسوسناک واقعہ سامنے آیا ہے۔ ایودھیا میں رام مندر کی افتتاحی تقریب کے دوران عوامی جذبات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کروڑوں روپے کا فراڈ کیا گیا۔ انکشاف ہوا ہے کہ جعلی ویب سائٹس کے ذریعے لوگوں کو رام مندر کا “پرساد” گھروں تک بھیجنے کا جھانسہ دیا گیا اور ان سے بڑی رقوم وصول کی گئیں۔
اس اسکیم میں امریکہ کے ایک معروف پروفیسر کے نام کا ناجائز استعمال بھی سامنے آیا ہے، جس کے ذریعے بھارتی شہریوں کو جھانسہ دے کر لوٹا گیا۔ ویب سائٹس پر دی گئی جعلی معلومات کے ذریعے عقیدت مندوں کو یقین دلایا گیا کہ انہیں رام مندر سے براہِ راست مقدس پرساد ملے گا۔ مگر نہ کوئی پرساد پہنچا، نہ ہی کوئی ذمہ دار سامنے آیا۔
بھارتی سائبر سکیورٹی ادارے اس بڑے پیمانے پر ہونے والے فراڈ کو روکنے میں ناکام رہے۔ جب سارا بھارت رام مندر کی تقریب کی خوشیوں میں مصروف تھا، پردے کے پیچھے مالی بدعنوانی کی ایک نئی داستان رقم ہو رہی تھی۔ بھارتی حکومت، بالخصوص مودی سرکار، اس معاملے پر خاموش ہے، جس نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔
اس فراڈ نے ایک بار پھر مودی حکومت پر لگنے والے اس الزام کو تقویت دی ہے کہ وہ مذہب کو صرف سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے۔ آج عوام اس سوال کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں کہ آیا حکومت کی ترجیح واقعی عوام کی حفاظت ہے یا صرف مذہبی جذبات کو کیش کروانا؟ عقیدت مندوں کو دھوکہ دینے والے اس نیٹ ورک کے خلاف کوئی بڑی کارروائی نہیں کی گئی، اور حکومت کی خاموشی نے معاملے کو مزید مشکوک بنا دیا ہے۔
رام کے نام پر ہونے والا یہ دھوکہ صرف ایک فراڈ نہیں بلکہ بھارت میں مذہب اور عقیدت کے استحصال کی ایک اور بھیانک مثال ہے۔ عوام کے ذہنوں میں یہ سوال گونج رہا ہے کہ کیا بھارتی ریاست اب عقیدت کی محافظ ہے یا مجرم؟ آج بھارت میں نہ دیوی محفوظ ہے نہ درشن، ہر مقدس موقع ایک نیا فراڈ بن کر سامنے آ رہا ہے۔ مودی کے ’نئے بھارت‘ میں عقیدت مندوں کی جیبیں خالی اور مذہب کے بیوپاری مالامال ہو رہے ہیں۔
اصل سوال یہ نہیں کہ یہ سب کیسے ہوا، اصل سوال یہ ہے کہ یہ سب کس کے اشارے پر ہوا۔