اسلام آباد: محبت کی خوشبو کو اشعار کی لڑی میں پرو کر بیان کرنے والی منفرد لہجے کی شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 30 برس بیت گئے ہیں لیکن اردو زبان و ادب سے محبت کرنے والے آج بھی انہیں نہیں بھولے۔انکی شاعری کی خوشبو نے کئی عشروں بعد بھی گلشن ادب کو مہکا رکھا ہے۔
اردو ادب میں خوشبو اور محبت کے پھول بانٹنے والی معروف شاعرہ پروین شاکر کو مداحوں سے بچھڑے یو ں توتیس سال گزر گئے ، مگر ان کی شاعری آج بھی خوشبو کی طرح کو بہ کو پھیلتی محسوس ہوتی ہے۔
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی!! ٓٓ
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی!!
پروین شاکر24نومبر1952 کو کراچی کے ایک ادبی گھرانے میں پیدا ہوئیں، آپ نے نوعمری میں ہی ادبی سفر کا آغاز کر دیا نثرنگاری بھی کی مگر شاعری سے انہیں عشق تھا، ان کا ابتدائی قلمی نام بینا تھا، غزلیات اور نظمیں لکھنے سے خاص شہرت پائی، 1976ء میں ان کا مجموعہ کلام خوشبو منظرعام پر آتے ہی ادبی حلقوں میں تہلکہ مچ گیا اور انہیں خوشبو کی شاعرہ کا خطاب ملا۔
اک چمک سی تو نظر آئی ہے اپنی خاک میں!!
مجھ پہ بھی شاید توجہ کی نظر ہونے کو ہے!!
پروین شاکر کی دیگر تصانیف میں صد برگ، خود کلامی، انکار، ماہ تمام، کف آئینہ اور گوشہ چشم شامل ہیں، ان کی شاعری میں محبت، خوشبو، پھول، ہوا اور تتلی کا ذکر جابجا ملتا ہے، کئی دہائیوں بعد بھی ان کی شاعری کی خوشبو مدھم نہیں پڑی۔ ان کی شاعری کو آج بھی ادب کا ذوق رکھنے والے افراد بے پناہ پسند کرتے ہیں اور وہ ان کوخوب داد تحسین پیش کرتے ہیں۔
ایک لمحے کی توجہ نہیں حاصل اس کی!!
اور یہ دل کہ اسے حد سے سوا چاہتا ہے!!
اردو ادب میں شاندار خدمات کے اعتراف میں پروین شاکر کو 1990 میں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔
پروین شاکر 26 دسمبر1994 کو 42 برس کی عمر میں اسلام آباد میں ایک کار حادثے میں وفات پاگئیں۔مگر اپنے خوبصورت اشعار کے ذریعے وہ چمن اردومیں ہمیشہ مہکتی رہیں گی۔
مر بھی جاؤں تو کہاں، لوگ بھلا ہی دیں گے!!
لفظ میرے، میرے ہونے کی گواہی دیں گے!!